تخلیق انسانیت کے بعد اس کے لئے زندگی گزارنے کے اطوار اور اسلوب خالق کی طرف سے وضع کئے گئے ہیں۔ جن کی پاسداری میں گزرنے والے لمحات کو تابعداری اور ان کے بر عکس بیتنے والے ایام کو نافرمانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور دونوں کیفیات کے لئے ثواب وعذاب کی صورت میں صلہ متعین ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اللہ رب العزت کے نمائندے پیغمبروں کی صورت میں مبغوث ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے خدا کے پیغامات کو من و عن ان کے بندوں تک پہنچانے کے فرائض ادا کئے ہیں۔ اس منصب کی بجا آوری کے دوران نا فرمان بندگان خدا کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے پیغمبران خدا کی طرف سے جو طور طریقے وضع کئے گئے ہیں ان میں ترش، تلخ، کرخت اور نفرت آمیز الفاظ کے استعمال سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اور محبت، خلوص اور خیر خواہی سے لبریز جملوں کی مہک سے ان کا دعوت اللہ معطر ہوتا رہا ہے۔ بنی نوع انسان کی فلاح اور نجاب کی مخلصانہ آرزؤں کے ساتھ خالق کی رحمانیت کی امیدوں کی طمع اور لالچ کو دلوں میں جاگیزیں کرنے کی کاوشیں ہوئی ہیں۔ اور خالق کائنات خود اپنے قاصدوں کو اپنے بدترین دشمنوں کے سامنے بھی نرمی سے بات کرنے کی ہدایت فرمائے ہیں۔ اور حق کی طرف دعوت دینے کے لئے تربیت کے طور پر حکمت اور خوبصورت جملوں کے استعمال کی ضرورت پر ذور دئے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ رشدو ھدایت کی نعمت عظمٰی سے سرفرازی کو اپنی چاہت سے مشروط کئے ہیں۔
سرکار د و عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ کہ خدا کے فضل و کرم کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے یہ پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ کیا آپ بھی نہیں جاسکتے۔آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی نہیں جاسکتا۔ یوں دین حق کی روشنی سے دنیا کو منور کرنے کے لئے داعیاں حق کو صرف پیغام رسانی کی ذمہ داری تک محدود کیا گیا ہے۔ مگر آج دین کی آبیاری کے لئے کی جانے والی کاوشوں میں الہامی طور طریقوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور اللہ رب العزت کی رحمانیت کی امیدوں کی بیسا کھیوں کے سہارے گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے تصور کو اجاگر کرنے کی طرف رغبت نا پئید ہے۔ اور اس کے بر عکس انسانی نعزشوں اور نا فرمانیوں کی نشان دہی کرتے وقت الفاظ کے استعمال اور گفتار کے انداز سے خداوند قدوس کے رحم و کرم سے گناہگار وں کی مکمل محرومیت کا ترشع ہوتا ہے اور بندگان خدا کی تذلیل کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ فتووں سے فوری طور پر جہنم واصل کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بشر فطرتاً لغزشوں کا شکار ہونے والا مخلوق ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
بہک کر باغ جنت سے چلا آ یا تھا دنیا میں
سنا ہے بعد محشر پھر بھی جانا وہی جنت ہے
چلا تو جاوں جنت میں مگر یہ سوچ کر چپ ہوں
میں آدم ذاد ہوں مجھ کو بہک جانے کی عادت ہے
مگر انسان جب کلمۂ حق کے حصار میں داخل ہونا ہے تو رحمت خداوندی کی آغوش میں آجاتا ہے اور اپنی لغزشوں کے باوجود رجوع کرنے میں دیر کر سکتا ہے۔ مگر قبولیت میں تاخیر نہیں ہوتی۔ حضرت حسن بصری ؒ سرکار دو عالم ﷺ کی ارشاد کو روایت کر تے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب ابلیس کو زمین پر اتارا تو اس نے کہا کہ تیری عزت و عظمت کی قسم جب تک انسان کی جسم میں جان رہیگی میں اسے گمراہ کرنے کی کوشش کر تا رہوں گا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا “میری عزت و عظمت کی قسم میں حالت نزع سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول کر تا رہوں گا۔
“۔ مختصر یہ کہ ان حقائق کی روشنی میں یہ امر بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ایسے رحیم، کریم اور مشفق مہربان پروردگار کی حکم عدولی کرنا بھی نمک حرامی کی بد ترین مثال ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔تبدیلیوں پر پا بندی
- کھیلاپر چترال میں جشن کا غ لشٹ آج جمعرات کے روز شروع ہوگئی
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔”ہمارے ہاں خدمت کا صلہ“۔۔۔۔
- مضامینداد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔مزدوروں کا دن
- ہومتھانہ ایون کی حدود میں لویر چترال پولیس نے منشیات کے خلاف کریک ڈاون کے دوران کالاش وادی رمبور میں کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے کرنل کے بیٹے میجر کو دیسی شراب کی بڑی مقداروادی سے چترال شہر ٹرانسپورٹ کرنے کی پاداش میں رنگے ہاتھوں گرفتارکرلیا۔
- مضامینداد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔انسا نی حقوق کا آئینہ
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”زندگی سے ڈرو“۔۔
- سیاستلویر چترال میں تحصیل چیرمین دروش کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار سید فریدجان ایڈوکیٹ نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیابی حاصل کی ہے۔
- مضامینداد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔نظر آنے والے کام
- ہومچترال کے معروف صحافی گل حماد فاروقی ہفتے کی صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے