دینی رہنمائی کے اسلوب۔۔تحریر: اقبال حیات ؔ آف برغذی

Print Friendly, PDF & Email

تخلیق انسانیت کے بعد اس کے لئے زندگی گزارنے کے اطوار اور اسلوب خالق کی طرف سے وضع کئے گئے ہیں۔ جن کی پاسداری میں گزرنے والے لمحات کو تابعداری اور ان کے بر عکس بیتنے والے ایام کو نافرمانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور دونوں کیفیات کے لئے ثواب وعذاب کی صورت میں صلہ متعین ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اللہ رب العزت کے نمائندے پیغمبروں کی صورت میں مبغوث ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے خدا کے پیغامات کو من و عن ان کے بندوں تک پہنچانے کے فرائض ادا کئے ہیں۔ اس منصب کی بجا آوری کے دوران نا فرمان بندگان خدا کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے پیغمبران خدا کی طرف سے جو طور طریقے وضع کئے گئے ہیں ان میں ترش، تلخ، کرخت اور نفرت آمیز الفاظ کے استعمال سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اور محبت، خلوص اور خیر خواہی سے لبریز جملوں کی مہک سے ان کا دعوت اللہ معطر ہوتا رہا ہے۔ بنی نوع انسان کی فلاح اور نجاب کی مخلصانہ آرزؤں کے ساتھ خالق کی رحمانیت کی امیدوں کی طمع اور لالچ کو دلوں میں جاگیزیں کرنے کی کاوشیں ہوئی ہیں۔ اور خالق کائنات خود اپنے قاصدوں کو اپنے بدترین دشمنوں کے سامنے بھی نرمی سے بات کرنے کی ہدایت فرمائے ہیں۔ اور حق کی طرف دعوت دینے کے لئے تربیت کے طور پر حکمت اور خوبصورت جملوں کے استعمال کی ضرورت پر ذور دئے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ رشدو ھدایت کی نعمت عظمٰی سے سرفرازی کو اپنی چاہت سے مشروط کئے ہیں۔
سرکار د و عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ کہ خدا کے فضل و کرم کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے یہ پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ کیا آپ بھی نہیں جاسکتے۔آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی نہیں جاسکتا۔ یوں دین حق کی روشنی سے دنیا کو منور کرنے کے لئے داعیاں حق کو صرف پیغام رسانی کی ذمہ داری تک محدود کیا گیا ہے۔ مگر آج دین کی آبیاری کے لئے کی جانے والی کاوشوں میں الہامی طور طریقوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور اللہ رب العزت کی رحمانیت کی امیدوں کی بیسا کھیوں کے سہارے گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے تصور کو اجاگر کرنے کی طرف رغبت نا پئید ہے۔ اور اس کے بر عکس انسانی نعزشوں اور نا فرمانیوں کی نشان دہی کرتے وقت الفاظ کے استعمال اور گفتار کے انداز سے خداوند قدوس کے رحم و کرم سے گناہگار وں کی مکمل محرومیت کا ترشع ہوتا ہے اور بندگان خدا کی تذلیل کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ فتووں سے فوری طور پر جہنم واصل کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بشر فطرتاً لغزشوں کا شکار ہونے والا مخلوق ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
بہک کر باغ جنت سے چلا آ یا تھا دنیا میں
سنا ہے بعد محشر پھر بھی جانا وہی جنت ہے
چلا تو جاوں جنت میں مگر یہ سوچ کر چپ ہوں
میں آدم ذاد ہوں مجھ کو بہک جانے کی عادت ہے
مگر انسان جب کلمۂ حق کے حصار میں داخل ہونا ہے تو رحمت خداوندی کی آغوش میں آجاتا ہے اور اپنی لغزشوں کے باوجود رجوع کرنے میں دیر کر سکتا ہے۔ مگر قبولیت میں تاخیر نہیں ہوتی۔ حضرت حسن بصری ؒ سرکار دو عالم ﷺ کی ارشاد کو روایت کر تے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب ابلیس کو زمین پر اتارا تو اس نے کہا کہ تیری عزت و عظمت کی قسم جب تک انسان کی جسم میں جان رہیگی میں اسے گمراہ کرنے کی کوشش کر تا رہوں گا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا “میری عزت و عظمت کی قسم میں حالت نزع سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول کر تا رہوں گا۔
“۔ مختصر یہ کہ ان حقائق کی روشنی میں یہ امر بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ایسے رحیم، کریم اور مشفق مہربان پروردگار کی حکم عدولی کرنا بھی نمک حرامی کی بد ترین مثال ہے۔