چترال میں بڑھتی ہوئی خودکشی کا رجحان۔۔ از۔ڈاکٹر فرمان نظار

Print Friendly, PDF & Email

زندگی ایک انمول تحفہ ہے۔ انسان اپنی ساری تگ ودو اس انمول تحفے کی حفاظت میں گزارتا ہے۔ انسان کی سوچ،علم،گوش اور صحت سب کا محور زندگی کی روانی کو جاری رکھنے میں اور اس روانی کو بہتر سے بہتر انداز میں ترتیب دینے کے اردگرد گھومتی ہے۔ لیکن کبھی اس طرح بھی ہوتا ہے۔ کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ یہی انمول تحفہ ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ کس طرح اس بوجھ سے چھٹکارا پاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدرت کے اس تحفے کا بوجھ بن جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بوجھ کا گھیرا تنا بھاری ہوتا کہ انسان اس بوجھ کو اتارنے کا فیصلہ کر بیٹھے۔۔۔۔زند گی کے بوجھ کو اتارتا۔۔۔۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب خود کشی کرنا۔۔۔۔۔یون انسان خدکشي کرنے کا سوچنے لگتا ہے
جس طرح اسلام میں زندگی کو ایک انمول تحفہ قرار دیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ موت حرام اس لئے بھی ہے کہ اللہ تبارک نے قرا ن پاک میں انسان کو بے شمار نعمتوں کی بشار ت دیتا ہے۔ ان نعمتوں کی بشارت زندہ انسان کو دی گئی ہے۔ ان نعمتوں کی تبارک وتعالی جس پیارے انداز میں انسان کو دیتا ہے۔ اس کی ایک جھلک سورہ رحمن میں بالکل واضح ہے خود کو موت کے منہ میں دھکیلنا مطلب اللہ تعالی کی طرف سے پیش کی جانے والی ان نعمتوں کو قبول نہ کرنے کے متراد ف ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی جیسے اپ کسی کو عزت دیکر نہایت خلوص سے کوئی چیز کسی کو پیش کرتے ہو۔اگر سامنے والا بندہ اپ کی یہ پیش کش کو قبول نہ کریں تو اپ کو کتنی تکلیف ہوگی۔ خودکشی بالکل ایسے ہی اکہ اپ اللہ تعالی کی طرف سے اپ کو پیش کیجانے والی تحائف کو قبول نہ کررہے ہو۔ اس لئے تو خودکشی اسلام میں حرام ہے۔ ایک ایسی چیز جس کا نہ مذہب میں اجازت ہے۔اور نہي معاشرتی لحاظ سے وہ ایک پسندیدہ فعل ہو۔ ا؁یسے فعل کا تواتر کیساتھ ایک معاشرے ہونا سب کے لے ایک لمحہ فکرےۃ ہے۔ یہ سوچنے والی بات ہے کہ ایسے کون سے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ ایک انسان معاشرے کے وظع کردہ راہنما اصولوں سے بھی انحراف کرنا ہے اور مذہب کی طرف بتائی گئی اصولوں کو بھی بالا طاق رکھ کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیتا ہے انفرادی حیثیت میں یہ ایکانتہایئ ناپسندیدہ عمل ہے ہي۔۔۔۔ لیکن جب کسی معاشرے میں بڑے تواتر کے ساتھ یہ عمل دہرایا جائے تو اس معاشرے میں اس کام کو صرف ناپسندیدہ فعل قرار دئے جانے سے زیادہ کچھ کرنے کی صورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اس معاشرے کے مقتدر حلقوں، مذہبی رہنماوں، سماجی عمائدین اور اہل قلم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کہ وہ اس نحوست سے معاشرے کو نکالنے کے لئے اپنی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ عزت اور مقام کسی بھی سماجی نظام میں ایک ذمہ داری کے ساتھ ملتي ہے۔۔۔انگریزي کا وہ مشہور منقولہ کہ
Great Power always comes with great responsibility
بڑا ہيفکر انگیز معلوم ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں معاشرے کے ہر فرد کو جو سمجھتا ہے کہ وہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہے۔۔۔
خدکشي کو اگر سرسي طور پر بھي دیکھا جاے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل نقص خدکشي کرنے والے کے دماغ میں ہوتا ہے۔اس بات پہ سب ہي متفق ہیں کہ مسلہ بندے کے جسم کہ کسي دوسرے حصے میں کبھي بھي نہیں ہوتا۔۔۔۔نقص، مسلہ یا بیماري جو بھي ہے وہ خدکشي کرنے والے کے دماغ میں ہے۔۔بالفاظ دیگر یہ ایک دماغي مرض ہے۔۔یعني دماغ کے اندر کچھ ایسا ہورہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔۔۔اور ٹھیک کرنے کي ضرورت ہے۔۔اگر یہاں تک بات سمجھ میں آ جاے اور معاملے کو اس طرح مان لیا جاے تو دماغي امرض سے زیادہ کچھ کرنے کي ضرورت باقي نہیں رہتي۔۔۔کافي مسایل خدبخود حل ہوجاینگے۔۔۔
خودکشی کے متعلق اتنی لمبی جوڑی تمہید کے بعد ائیے دیکھتے ہیں کہ ہمارا چترال اس منحوس فعل کے لحاظ سے کہان کھڑا ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے مخیر ادارے میں دماغی امراض پر ایک ملکی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ دماغی امراض کا ماہر جو کہ WHO(اقوام متحدہ) کا نمائندہ تھا نے پاکستان میں دماغی امراض اوراس کے نتیجے میں میں ہونے والے خودکشیوں پر پرزینٹیشن دی تو میرے لئے یہ ایک جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ کیونکہ اس رپورٹ کے مطابق چترال میں خودکشیوں کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈپریشن اور خودکشی کے لحاظ سے چترال افریقہ کے جنگ زدہ ممالک روانڈا اور برونڈيکے برابر تھا۔ ڈپریشن کی شرح خواتین میں 30%اور مردوں میں 10اور 15فیصد کے درمیان ہے۔ دماغی امراض کیلئے ديک جانے والی ادویات کے استعمال کی شرح بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ہے یعنی دماغی امراض کی کثرت سے استعمال ہونے والی ادویات جنہیں حرف عام میں (ANTI- DEPRASANT ANXIOLYTIC and )کیہتے ہیں کے استعمال کے لحاظ سے چترال پاکستان میں سب سے زیادھ تو ھے ہی ۔ اس لحاظ سے چترال افغانستان اور بوسنیا جیسے جنگ اور افت زدہ علاقوں کے برابر ہے۔ دنیا کے وہ علاقے جس کا اس رپورٹ میں ذکر ہے۔ یعنی روانڈا،برونڈی،بوسنیا اور افغانستان وہ علاقے ہیں جہاں عشروں تک جنگ اور بدامنی کے نتیجے میں کسئی نسلیں ختم ہوگئی ہیں۔ ان علاقوں میں ڈپریشن اور خودکشی کا زیادہ ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ کیونکہ ان ملکوں میں افت کا سایہ ہر گھر پر ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ ضرور پڑ چکا ہوتا ہے۔ ہر گھر میں کوئی یتیم ہے تو کوئی بیوہ۔کسی کا چھت چھن چکا ہے۔ تو کسی کے کسی چھت تلے مکین چھن چکے ہیں۔۔ایسے حالات ہمارے چھوٹے سے ضلع چترال میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے نہیں ہیں یہاں ایسی کوئی جنگ و جدل والی صورتحال ماضی قریب میں تو کیا گزرشتہ کئی صدیوں سے نہیں ھوئے۔۔۔ لیکن دماغی امراض کی شرح ان ممالک کے برابر ہے۔ صرف سال 2012کے دوران چترال میں خودکشی کے 14واقعات رونما ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ ان میں وہ واقعات شامل نہیں ہیں جنہیں مصلحتوں کے تحت چھپائے گئے۔ ایک اور حیران کن امر ان 14واقعات میں یہ بھی ہے کہ یہ سب خواتین ہیں۔ اگر ہم چترال کی خواتین ابادی کے تناسب سے شرح نکالیں تو یہ تقریبا اس طرح بنتی ہے۔ کہ ہر13700خواتین میں سے ایک عورت خودکشی کرتی ہے۔ چترال کی ابادی اگر2012میں چار لاکھ تھیں اور اس میں مرد اور خواتین کو برابر تصور کی جائے۔تو خودکشی کی یہ شرح ہر 13700خواتین میں ایک عورت بنتی ہے۔اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ہر سال خودکشی کرنا بہت ہی خوفناک منظر پیش کرتا ہے۔اس خوفناک منظر کا ایک قابل غور پہلو بھی ہیں۔وہ یہ کہ سب خواتین 15سے35سال کے عمر درمیان کے تھے۔ شماریات کے حساب سے کسی بھی ملک میں 15سال سے 45سا ل کی عمر کے لوگ ابادی کے 45فیصد ہوتے ہیں۔ اگر اس سارے صورتحال کو شماریات کے پس منظرمیں آبادی کے اس مخصوص حصے کے حساب سے دیکھا جائے تو حقائق رونگھٹے کھڑے کردینے والے بن جاتے ہیں۔ یعنی خودکشی کا تناسب چترال کے 15سال سے45سال والے کے درمیاں والے خواتین میں تقریبا اس طرح بنتا ہے۔ کہ ہر6000 عورتوں میں سے ایک خودکشی کرتی ہے۔۔۔۔جس طرح اوپر واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ شرح صرف ان واقعات کو احاطہ کرتی ہے جو رپورٹ ہوئے۔ان میں ان کے گھر وں کے واقعات شامل نہیں جن کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ ایسے واقعات باہر کی دنیا کو نظر نہیں اتے۔ان میں ان خاندانوں کے واقعات بھی شامل نہیں جن کی ٹوپی کا مان گھر کے بچیوں کی زندگی سے قیمتی ہوتاہے۔یہ تعداد ان بااثر خاندانوں میں ہونے وانے واقعات کو بھی احاطہ نہیں کرتی جو منٹوں میں غیر طبی موت کو طبی اور طبی موت کو غیرطبی بنا دیتے ہیں۔۔۔ مختصر یہ کہ یہ شرح چترال کے لحاظ سے حتمی نہیں حقیقت شاید اس سے بھی بھیانک ہو۔ افسوس کہ ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ ہوتا کہ ہم نہ دکھنے والے ان دیواروں کے اس پار آ ہو اور سسکیوں کو بھی دیکھ سکتے۔۔۔۔۔
سرسری شماریاتی جائزے کے بعد ایک صورتحال ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ کہ ہمارے چترال میں ہر6000خواتین میں ایک عورت خودکشی کرتی ہے۔ خودکشی کی شرح اخر ہمارے چھوٹے سے پر امن ضلع چترال میں اتنی زیادہ کیوں ہے کہیں نہ کہیں کچھ تو کچھ تو غلط ہورہا ہے۔ کچھ عوامل ایسے ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ صورتحال ہے۔اگر ہم کم ازکم اپنی سی کوشش وجوہات جاننے کے لئے کریں تو مسئلے کے حل کی طرف یہ پہلا قدم ہوگا۔ وجوہات مختلف مکتب وفکر کے حضرات کے نزدیک مختلف ہوسکتے ہیں۔لیکن اگر مختلف پسمنظر والے حضرات کے رائے کو ایک جگہ جمع کرکے دیکھیں تو شاید ایک واضح صورت حال سامنے ائے گی۔ جب ایک صورتحال سامنے ائے گی۔اگلا قدم ان اسباب کی روک تھام کی طرف ہوگا۔فیالحال تو صورتحال یہ ہے کہ اول تو ھم اس مسلے کر مسلہ ہی ماننے کے لے تیار نہیں َ۔۔کہیں کہیں ہم اگر بہت فراخدلی کا مظاحرۃ کرکے اس مسلے کو اگر واقعی میں مسلہ سمجھتے ھیں تو اسکا جو حل ہم تجویز کرتے ہیں وہ۔۔۔۔۔لا حولہ و لا قوہ
صحت کاکوئی مسئلہ جب اس حد تک سنگین صورت حال اختیار کریں۔ تو مہذب دنیا میں حکومتی مشینری وہ پہلی چیز ہوتی ہے۔ جو عوام کے تحفظ کے لئے اگے آتی ہے۔ لیکن مملکت خداداد میں خداکے فضل سے عوام کے تحفظ کے لئے حکومتی مشینری شازو نادر ہی حرکت میں اتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھربھی اپ اگر تقاضا کریں تو لیجے ملاحظہ کیجئے صورت حال۔۔۔۔۔پورے ضلع چترال میں نفسیاتی امراض کے لئے ایک ڈاکٹر بھی موجود نہیں۔حالانکہ کسی ضلع میں اگر ایسی ہنگامی صورت حال کسی خاص مسئلے کا پیدا ہوجائے تو حالات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کے لئے دوسرے اضلاع سے انسانی اور مادی وسائل کو متاثرہ علاقے میں منتقل کیا جاتاہے۔ پورے ضلع میں نفسیاتی مسائل کا ایک بھی کلینک موجود نہیں۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی معلومات (اس مخصوص مرض کے بارے میں)کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ اگر کوئی سمجھدار بندہ اپنے کسی ایسے مریض یا مریضہ کو علاج کی عرض سے ہسپتال لیکر آے بھی تو لوگوں کا ایک ہجوم اس کے گرد جمع ہوجاتا ہے۔۔۔چمی گوئیاں شروغ ہوجاتی ہیں۔۔۔لوگ زیرلب اپنے اپنے اندازے لگانے شروغ کرتے ہیں۔۔۔۔اس دوران جمع ہوئے لوگوں میں سے ایک بندہ انسانی خدمت کے جزبے سے سرشار اگے اکر چند بیش قیمت مشورے مفت میں دے ڈالتا ہے جنکا لب لباب یوں ھوتا ہے۔۔”بھی آپ بیچارے کو یہاں کیوں خوار کر رہے ہو۔۔اس پر جنات کا اثر ہے۔اس کا علاج فلاں مولوی فلاں پیر کریگا۔یہاں اس کو رسوا مت کرو“۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہسپتال کے انتظار گاہ میں یابھرے وارڈ میں سب کے سامنے ہو رہا ہوتا ھے۔۔۔اس پورے سورتحال میں نہ صرف مریضہ (اکثر مریضہ)کا علاج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے بلکہ مرض زیادہ ہوجاتا ہے۔۔۔اس پورے ڈرامے کے بعد اس بندے کی ہمت بھی جواب دے دیدیتی ہے جو گھر کے سارے بڑوں کی نارازگی مول لیکر مریضہ کو علاج کے لئے کسی پیر مولوی کے پاس لیجانے کی بجائے ہسپتال لیکر ایا ہوتا ہے۔۔۔یوں ایک ایسا بندہ جو علاج پر یقین رکھتا ہے جو مرض کو مرض مانتا ہے وہ بھی ”روحانی علاج کرنے والوں“ کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ سب کچھ حکومت کی طرف سے ایک مسلے سے غفلت برتنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔اگر سرکار کی طرف سے علاقے میں دماغی مسلوں کے علاج کا کوئی مربوط نظام ھوتا ۔۔۔یا کم از کم موجود مراکز صحت میں دماغی امراض کا کوئی ماہر میسر ہوتا تو صورتحال یقیننا اس سے بدرجا بہتر ہوتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چترال کے اندر صحت کے معاملے کا اگر ذکر ہوجائے۔ تو ایک نجی ادارے یعنی آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کا ذکر لازمی بن جاتا ہے۔ کیونکہ اس ادارے نے علاقے کے تقریبا 40فیصد ابادی کو صحت کی سہولت دینے کی ذمہ اپنے سر پر لے رکھی ہے اس میں کوئی شک نہیں اغاخان ہیلتھ سروسز ایک ایسے مربوط نظام کا نام ہے جو دنیا کے بیس سے زیادہ ممالک میں اعلی درجے کی سروس مہیا کر رہی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑتا ہے۔حکومتی 60فیصد کو دیکھ اب یہ ادارہ بھی اپنے آپ کو بھی سرکاری وضع میں ڈھال لیا ہے۔ بین الاقوامی معیار کی صحت سہولت عوام کو دینے کا دعویدار یہ ادارہ جس معیار کی سہولت پہنچا رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک اپ خود ملاحظہ فرمائے۔ چونکہ زگر یہاں نفسیاتی بیماریوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خودکشیوں کا ہے۔ اس لئے یہاں AKHSPکو اس تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔
کسی بھی ملک میں جب ایک NGO کو کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تو یہ NGOکئی ایک معاملات میں خصوصی رعایت سے مستفید ہوکر اپنے کام کا آغاز کرتی ہے۔ ایسا ہی صورتحالAKHSPکے ساتھ بھی ہے۔ AKHSPچترال میں 05ہسپتالوں اور 25ہیلتھ سنٹر اور 5دسپنسریوں کے ایک مربوط نظام کے ساتھ کام کررہی ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی پورے ایدارے مین نفسیاتی مسائل کا ایک بھی ڈاکٹر موجود نہیں۔ یہاں صورت حال خطرناک سے بھی اگے بڑھ کر علاقے کے ساتھ ایک مذاق کی صورت اختیار کرچکی ہے۔۔علاقے میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی وجہ سے چند سال پہلے جبAKHSPکے بڑوں نے چترال میں Mantal Healthکے نام سے ایک پروگرام کا اغاز کیا تو سب کو اس سے بڑی امیدیں وابستہ ہوگی۔ لیکن جب مینٹل ہیلتھ پروگرام کو عملا سامنے لایا گیا۔ تو بے اختیار یہ مثل زبان پر اگیا۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔نفسیاتی مسئلے کے انتہائی اہم اور حساس معاملے کو LHVs(لیڈی ہیلتھ وزیٹر)کے ذریعے چلانے کی کوشش کی گئی LHVsایک خاص عمل کے لئے تربیت شدہ ہوتی ہیں۔ انکا کام نارمل زچگی کو بتائے Protocolکے تحت انجام دینا ہوتاہے۔۔۔ لیکن یہاں گنگا کو الٹی طرف بہانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔۔ ا یک انتہائی خطرناک کام کو غیر تربیت یافتہ افرد کے ذریعے چلانے کی کوشش کی گئی۔۔۔حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ خطرناک فیصلہ کرتے وقت متعلقہ حکام کی عقل کیا گھاس چرنے گئی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس پروگرام سے لوگوں کافائدہ ہونا تو دور کی بات اک قیمتی جان چلی گئی۔ یعنی ایک دماغی مریض نے معالج کی ہی جان لے لی۔ کہنے کو تو یہ ایک حادثہ تھا لیکن میں اس کو حادثہ ہر گز نہیں مانتا۔ بلکہ یہ ایک بے انتہادرجے کی غیر زمہ داری اور لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کا انجام تھا۔ میڈیکل سائنس کے سب سے پیچیدہ اور خطرناک شعبہ کو یعنی نفسیاتی مسائل کے شعبہ کو LHVکے زیعے چلانے کی کوشش کی گئی تو اس کی قمیت تو بحر حال ادا کرنی تھی۔اور وہی ہوا۔ اگر ادارے کے مقتدر حلقے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہونگے۔۔۔تو۔۔۔۔تو قیمت سب نے مل کر چکانا تو پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اس تحریر کا مقصد نہ سرکار اور نہی کسی پرایؤٹ ادارے کو نیچا دکھانا مقصود ہے۔۔مقصد صاف اور نیک ہے۔۔۔۔مقصد اپنے گریئبان میں جھانکنا اور اپنے خامیؤں اور کوتاھیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔۔۔۔اس نیک کوشش میں اگر کوئی لفظ،کوئی جملہ، کوئی پیرا یا مکمل تحریر کسی ادارے یا فرد کے مزاج، مزاح، طبیئت، مقصد یا مفاد کے خلاف گئی ہو۔۔تو۔۔۔میں معذرت خواہ ہوں َََ۔۔۔۔۔۔ میرا مقصد کسی کی دل آذاری ہرگز نہیں ََ۔۔۔ علاقے میں ایک مسلہ آفت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔۔۔۔۔ یقیین نہ ائے تو موجودہ سال(2017) کے دوران ہوے خودکشی کے واقعات کی تعداد کا اندازہ لگائے۔۔۔جو سال 2012 کے مقابلے میں بہت ہی خوفناک ہیں َ۔۔۔۔(تحریر میں حوالہ 2012 کے اس پاس ہوے واقعات کا دیا گیا ہے)۔۔۔۔۔۔ میری تو ان سب سے گزارش ہوگی جو علاقے کے لئے درد دل رکھتے ہیں وہ اگے ایئں۔۔۔۔اپنے سامنے ہوے واقعات کی روشنی میں ممکنہ وجوحات تلاش کرے۔۔۔۔۔ آپ کے تحریروں سے مقتدر حلقوں اور حکومتی اداروں کی گھنٹی بار بار بجے گی۔۔۔۔سوے ہوے اداروں کی نیند میں جب آپ کی تحریروں سے خلل پڑے گی بار بار۔۔۔۔تو۔۔۔ایک دن وہ ضرور پوری طرح جاگ جایئنگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ پھر بھی نہ جاگے تو عوام ضرور جاگ جائیگی۔۔۔