دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”زندگی سے ڈرو“۔۔

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”زندگی سے ڈرو“۔۔
بارویں جماعت کی کلاس میں داخل ہوا۔۔بچے بچیاں ادب سے احتراما کھڑے ہو? استاذ نے ان کو بیٹھنے کو کہا۔لکچر ادب پہ تھا باتوں باتوں میں استاذ نے کہا۔۔میرے بچو! موت سے مت ڈرو۔۔موت سے ڈرنیوالے بڑے بزدل ہوتے ہیں وہ ہمہ وقت خوفزدہ رہتے ہیں۔وہ موت سے پہلے ک? بار مرتے ہیں۔میرے بچو! زندگی سے ڈرو۔زندگی پچیدہ عمل کانام ہے یہ ایک پراسس ہے۔یہ ایک تسلسل ہے۔اس وقت کا بہتا دھارا ہے۔یہ ظالم ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی تو اس کو گنوا? گے تو یہ تجھے نیست و نابود کرے گی۔اس کے لمحے لمحے گننے پڑتے ہیں۔یہ خود تلخ تجربوں کانام ہے۔اس کو گزارنا نہیں اس سے لڑنا پڑتا ہے۔۔۔یہ لو کڑاکے کی سردی،یہ لو عضب کی گرمی یہ جاڑہ یہ بارش۔۔یہ سفر خضر۔۔یہ بیماریاں تندرستیاں۔۔یہ لڑا?ی جھگڑے یہ سب انسان کو کڑکا کے رکھ دیتے ہیں۔یہ زندگی سبق بھی سیکھاتی ہے بدلہ بھی دیتی ہے معاف نہیں کرتی۔۔کامیاب لوگ جب اس کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں تو اس کو اہمیت بہت دیتے ہیں لیکن اس کی رنگینیوں سیدور بھاگتے ہیں اس کی فانی ہونے پہ ان کا یقین پختہ ہوجاتا ہے۔میرے بچو! زندگی سے ڈرے یہ دوسرے لمحیسب یہ دوسرے لمحیکو سبق سیکھاتی ہے۔اس نے کامیابی کو محنت سے مشروط کر رکھا ہے اس نے سکون وراحت کو صداقت سے مشروط کر رکھا ہے۔اس نیاطمنان کو مخلوق کی خدمت سے مشروط کر رکھا ہے۔انہوں نے عافیت کو حلال اور انصاف سے مشروط کر رکھا ہے۔انہوں نے خوشی کو غم سے، ہنسی کو آنسووں سے، تنگدستی کو فیاضی سے اور محبت کو صاف اورنیک نیتی سے مشروط کر رکھا ہے اگر تمہیں اپنی خوشی چاہی? ہوتی ہے تو دوسروں کو خوش رکھنا ہوگا جو بڑادل گردے کا کام ہے۔اپنی کامیابی حق و صداقت اور دوسروں سے اخلاص سے مشروط کرناہوگا جو بڑا مشکل کام ہے۔اگر اطمنان کی خواہش ہوتو اپنی دھن دولت دوسروں پہ لٹانا ہوتا ہے فیاضی بہت مشکل ہے۔میرے بچو! زندگی خواہشات کی قتل گاہ ہے اپنی آرزوویں کچلنا ہوگا۔ظلم کے خلاف ڈٹنا ہوگا۔پوری دنیا مخالفت کرے گی آپ کو اکیلا ہونا ہوگا۔جو زندگی سے لڑنا سیکھے اس کو چاہی? ہوتا ہے کہ اس کو جیت جا?۔اس کو جیتنا بہت مشکل ہے۔موت ایک لمحے کا حادثہ ہے اس سے مت ڈرو زندگی سے ڈرو اس مسلسل لڑا?ی سے ڈرو۔۔میرے بچو! چند امیروں کے علاوہ سب غریب زندگی گزار نہیں رہے ہیں لڑ رہے ہیں۔ان کو غربت کی جنگ کا سامنا ہے۔صحت کی جنگ کا سامنا ہے اولاد کی فکر میں گھل رہا ہے۔معاشرے کی محرومیاں ان کو کچل رہی ہیں۔اگر آپ دولت مند ہیں تو غربت سے ڈرو زندگی جب کروٹ بدلتی ہے تو دیر نہیں لگتی۔۔دنیا نے کتنے امیروں کو بھیگ مانگتے دیکھا ہے۔اگر آپ صحت مند ہیں تو بیماری سے ڈرو کسی بھی وقت صحت چھینی جاسکتی ہے۔اگر آپ بے فکرے ہیں تو فکر سے ڈرو زندگی ایک آن میں پریشر ڈالتی ہے۔اگر آپ کے پاس کرسی ہے تو اس وقت کو مت بھولو کہ آپ عیاشیوں سے محروم کر دیے جا?یں گے۔میرے بچو! زندگی امتحان لیتی ہے اس میں پرچے حل کرنے ہوتے ہیں۔یہاں ذرے ذرے کا حساب وہاں جاکے دینا ہوتا ہے۔یہ مختصر ہے چند دن کا ناٹک۔۔۔اس میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے بڑے احتیاط سے اس کو گزارنا ہوتا ہے۔۔میرے بچو! ابھی جن کرسیوں پہ بیٹھے ہو یہ اس بات کا گواہ ہیں کہ آپ نے زندگی کو ضا?ع کیا یا مفید بنایا آج محنت کی کل اس کا صلہ پا?گے ورنہ یہ تمہیں ایسی سزا دے گی کہ تم بے موت مرو گے۔۔میرے بچو! دنیا میں کتنے لوگ ہونگے جو بظاہر بڑے شان وشوکت والے ہیں مگر زندگی نے ان کو ایسا سبق سیکھایا ہے کہ کڑھ رہے ہیں۔جوانی دیوانی سبق سیکھا کے گئی ہے فراغت عیاشی خواب دیکھا کے گئی ہے۔حسد، بعض، کینہ آگ ہیں اس میں بھسم ہو رہے ہیں۔زرو جواہر سمیٹتے ہیں مگر خالی ہاتھ جا رہے ہیں۔بھرا خاندان ہے مگر آخر میں اکیلے ہیں شہرت کی بلندیاں ہیں مگر آخری وقت نشان عبرت ہے۔۔پھر اس جہان کا امتحان بڑا سخت ہے۔سوالات بڑے پیچیدہ ہیں۔۔ بچے انہماک سے استاذ کو سن رہے ہیں گھنٹی کی آواز آتی ہے اور کہیں دور سے استاذ کی شرین آواز پھر ابھرتی ہے۔۔۔میرے بچو! زندگی سے ڈرو۔۔۔۔۔موت خود بہ خود آسان ہو جا? گی۔۔۔۔جیسے قیمتی تحفہ۔۔۔۔