ملک کے دوسرے حصوں کی طرح چترال میں عیدالفطر انتہائی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے منایا گیا

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) ملک کے دوسرے حصوں کی طرح چترال میں عیدالفطر انتہائی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ اور لاکھوں فرزندان توحید نے چترال کے مختلف عیدگاہوں اور مساجد میں نماز عید اداکی۔ چترال میں عیدالفطر کا سب سے بڑا اجتماع حسب سابق عیدگاہ ایون میں ہوا۔ جس میں تقریبا آٹھ ہزار افراد نے ممتاز عالم دین مولانا کمال الدین کی امامت میں نماز عید ادا کی ۔ خطیب عیدگاہ مولانا کمال الدین نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے کہا۔ کہ روزہ اللہ رب العزت سے براہ راست برکتیں اور راحتیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اللہ پاک اپنی نوارانی فرشتوں کے سامنے اپنے روزہ دار بندوں پر فخر کرتا ہے۔ اور نماز عید کے موقع پر اُن کی بخشش کا اعلان کرتا ہے۔ روزہ تزکیہ نفس اور تقوی کی علامت ہے۔ اور یہ انتہائی خوشی کا مقام ہے۔ کہ چترال کے لوگ روزوں کا بھر پور اہتمام کرتے ہیں۔ اور ماہ صیام میں تمام مساجد میں نمازیوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ دراصل ماہ رمضان دیگر مہینوں میں بھی خدا خوفی، عبادت گزاری تزکیہ نفس کی تربیت کا درس دیتا ہے۔ جس پر مستقل بنیادوں پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اُسی صورت میں فلاح پا سکتے ہیں۔ جب وہ اسلام کے ذرین اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ ہمیں ہر حال میں اعتدال، عفو درگزر، باہمی عزت و احترام اور تمام انسانوں کے جان ومال کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اور یہ اسلام کا ذریں اصول ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال کے مسلمانوں نے اقلیتوں کا ہمیشہ تحفظ کیا۔ اور کالاش کمیونٹی کی موجودگی اس کی واضح مثال ہے۔ تاہم انہوں اس بات پر نہایت ناراضگی کا اظہار کیا۔ کہ غیر ملکی لوگ اقلیتوں کی مدد کی آڑ میں اُنہیں اپنا مذہب قبول کرنے کا درس دیتے ہیں۔ جو کہ کسی صورت مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ اگر اقلیتوں میں سے کوئی اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے۔ تو اُسے اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ مسلم معاشرے میں رہتے ہیں۔ درین اثنا چترال کے کئی علاقوں میں عید کے اجتماعات ہوئے ہیں۔ جن میں بلال مسجد دروش، گرم چشمہ مسجد،بروز عید گاہ، بونی جامع مسجد، شاگرام تورکہو، مستوج جامع مسجد میں بڑے اجتمات ہوئے ہیں۔ نماز عید کے موقع پر اللہ پاک کے حضور مسلم اُمہ میں اتفاق و اتحاد، پاکستان کی سلامتی اور مسلمانوں کی دُنیاوی و اُخروی فلاح کیلئے دُعائیں مانگی گئیں۔