حکومت موجودہ احتساب ایکٹ میں بہت جلد ترامیم لا رہی ہے۔ سرچ، سکروٹنی اور اسکے نتیجے میں ڈی جی احتساب کمیشن کی نامزدگی کے اختیارات چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور ان کے نیچے چار ججوں پر مشتمل سکروٹنی کمیٹی کو دے رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک

Print Friendly, PDF & Email

پشاور(نما یندہ چترال میل)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت موجودہ احتساب ایکٹ میں بہت جلد ترامیم لا رہی ہے۔ سرچ، سکروٹنی اور اسکے نتیجے میں ڈی جی احتساب کمیشن کی نامزدگی کے اختیارات چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور ان کے نیچے چار ججوں پر مشتمل سکروٹنی کمیٹی کو دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور چار ججوں پر مشمل کمیٹی کی نامزد گی لازم العمل اور ختمی ہوگی جو احتساب کمیشن اور اسکے عمل پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے کسی بھی موجود حکومت پر تمام تر شکوک و شبہات اور قیاس آرائیوں کو دور کر دے گی۔ ہم نے صوبے کو شفاف سسٹم دیا، تمام تر قوانین اور اصلاحات اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے سے عمل میں لائے۔ارمان تھا کہ موقع ملنے پر صوبے کو ایسا نظام دوں کہ غریب کو انصاف ملے۔ادارے کرپشن سے پاک ہوں اور عوام کو بااختیار کرکے اپنے لئے تبدیلی لائیں۔قوانین کے ذریعے اپنے آپ کو جواب دہ بنایا، خود اقتدار میں ہو کر اپنے اوپر پابندیاں لگائیں۔ملائشین حکومت کے تعاون سے صوبے میں حلال فوڈ کی صنعت اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہو گا۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور اپ گریڈیشن کر چکے ہیں، اب افسران کی تنخوائیں بڑھائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں صدرپشاورپریس کلب عالمگیر کی سربراہی میں پریس کلب کی کابینہ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔احتساب ایکٹ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ وہ بہت جلد خیبر پختونخوا احتساب ایکٹ میں ترامیم لا رہے ہیں جن کے ذریعے ڈی جی کی جانچ پرکھ اور نامزدگی کے اختیارات چیف جسٹس کو دیئے جائیں گے۔ا حتساب کمیشن پر اعتراضات آ رہے تھے جسکی وجہ سے ہم شفاف طریقے کے لئے ہائی کورٹ کو اختیار دے رہے ہیں۔ہم قانون سازی، نظام اور عوام کو مضبوط کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے جس نے خود کو جواب دہ بنانے کے لئے قانون سازی کی اور اپنے اختیارات اداروں کو دیئے۔ اگر ہم میں غلطی اور کمزوری ہو گی تو یہ قوانین سب سے پہلے ہم پر لاگو ہو ں گے۔ہم میرٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور حکمرانی کے مجموعی عمل میں شفافیت کے قائل ہیں۔جب میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں تو اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ احتساب کے نظام کو مزید مؤثر اور شفاف بنانے کے لئے کل وقتی کام کرنا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف ہے۔ ہم سب سے پہلے اپنے رب کو جواب دہ ہیں اس لئے ہم نے جواب دہی کے کل وقتی نظام کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ انکی حکومت اپنے اختیارات کے مطابق صوبے میں اسلامی قوانین اور اقدار کے فروغ کے لئے عملی کام کر رہی ہے۔ ایم ایم اے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو نہیں کر سکی صوبائی حکومت نے عملاً کرکے دکھایا ہے۔ نجی سود کے خلاف قانون بنا چکے ہیں۔ جس کے تحت گرفتاریوں کا عمل شروع ہے۔ غیر شرعی جہیز کے خلاف قانون بھی انکی حکومت کا اسلام دوست اقدام ہے۔وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ حال ہی میں سابق ملائیشن وزیر اعظم کے ساتھ حلال فوڈ کی صنعت کے قیام کے لئے ایم او یو ہو چکا ہے۔ حلال اور حرام کی تصدیق کے لئے غازی میں پروگرام شروع کر رہے ہیں جو ملک میں اپنی نوعیت کا واحد منصوبہ ہو گا کیونکہ درآمدات میں حلال اور حرام اجزاء کی تشخیص صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔روزمرہ استعمال کی بہت سے د رآمدات میں حرام اشیاء کی ملاوٹ ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں انکی تصدیق کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں۔وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ ملائشین حکومت نے کوآپریٹیو فارمنگ کیلئے ایک لاکھ ایکڑ اراضی مانگی ہے جس کیلئے ڈیرہ اسماعیل میں زمین کی فراہمی زیر غور ہے ہم نے ان کو چشمہ لفٹ سکیم میں سرمایہ کاری کی بھی پیش کش کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اصلاحاتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ارمان تھا کہ صوبے کو ایک قابل عمل اور شفاف نظام دوں جہاں غریب عوام کو صحت، تعلیم اور سماجی خدمات کے دیگر شعبوں میں سہولیات میسر ہوں۔حقدار کو حق ملے۔ کسی سے نا انصافی نہ ہو۔ تھانے میں غریب کو عزت ملے اور ادارے عوام کو خدمات کی فراہمی پر جواب دہ ہوں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی حکومت نے اس مقصد کے لئے ریکارڈ قانون سازی کی۔ اصلاحات کے ذریعے اداروں کو ڈیلور کرنے کے قابل بنایا۔ اس عمل کو کل وقتی بنانے کے لئے جہاں دیگر اقدامات اٹھائے وہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ کیا اور اپ گریڈیشن کی۔ اب افسر ان کی تنخواہیں بڑھائیں گے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔ انہیں مالی مسائل کا سامنا نہ ہو اور خوش اسلوبی سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں۔ ہم کرپشن نہ کرنے کا ماحول دیں گے کیونکہ جب کم تنخواہ پر مالی امور کو نمٹانا مشکل ہو تو کرپشن کے دروازے کھلتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے سکولوں میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ہم ٹرانسفارمرز اور ٹیوب ویلز کیلئے وسائل دے چکے ہیں مگر وفاق کام نہیں کررہا۔وزیراعلیٰ نے ہسپتالوں میں عوام و خواص کی آمد پر مریضوں کیلئے مشکلات کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ہسپتالوں میں ایمرجنسی ایکٹ نافذکیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتالوں میں پریس ٹاک، فوٹو سیشن اوراس طرح کی دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے بدنظمی پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ مریضوں کی عیادت کیلئے آنے والے حکومتی اراکین اور دیگر لوگوں کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت کر چکے ہیں تا کہ بدنظمی اور پریشانی پیدا نہ ہو۔ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام اپنی جگہ جاری ہے اور ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے۔ مقصد عوام کو درپیش مسائل کا حل نکالنا ہے۔ صوبے کو شفاف نظام اور ڈیلیور کرنے کے قابل ادارے دینا انکی حکومت کا میگا پراجیکٹ ہے۔ تاہم ضرورت کے مطابق ترقیاتی سرگرمیاں بھی جاری ہے۔ سوات موٹر وے جو اپنی نوعیت کا کسی بھی صوبائی حکومت کے اپنے و سا ئل سے تعمیر ہونے والا واحد منصوبہ ہے، دسمبر2017 تک مکمل ہوجائیگاپشاور بس ریپڈ منصوبے پر بھی آئندہ اگست سے کام شروع ہو رہا ہے اس مہینے ٹینڈرز کا عمل مکمل ہو جائیگا۔ وزیراعلی نے واضح کیا کہ بی آر ٹی کے بنیادی منصوبے پر 33 ارب روپے لاگت آئیگی تاہم مین کوریڈور کے علاوہ سات رابطہ روٹس اور دیگر سہولیات بھی اسکے علاوہ ہونگی جو ملک میں اس نوعیت کے کسی بھی منصوبے میں شامل نہیں ہیں۔ دو ارب روپے صرف یوٹیلٹیزہٹانے پر خرچ ہونگے۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر صحافیوں کی فلاح کیلئے حکومتی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ صحافیوں کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اور مسائل کے حل کیلئے پہلے سے ہدایات جاری کر چکے ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر موجود متعلقہ حکام کو صحافیوں کیلے پلاٹوں کا طریقہ کا ر وضع کرنے کی ہدایت کی۔
<><><><><><>
ہینڈ آوٹ نمبر۔3۔پشاور۔13 اپریل2017 ء
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے قومیتوں کی بنیاد پر صوبے کے لاتعداد شہریوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کو امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس معاندانہ طرز عمل پر فوری نظر ثانی کرنے , بلاک شناختی کارڈ کھولنے اور اسی مقصد کیلئے اگلے چند روز میں صورتحال مکمل طور پر واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار نادرا کے ڈی جی گوہر احمد خان سے ملاقات کے دوران کیا جس نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں اُن سے ملاقات کی۔ گوہر خان نے بتایا کہ وفاق کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے اور اگلے چند روزمیں اس ضمن میں بعض ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں کئی بلاک شناختی کارڈ کھول دیئے جائیں گے جبکہ ویرفیکیشن اور دیگر شکایات کی بناء پر بلاک شناختی کارڈوں کیلئے بھی پالیسی واضح کر دی جائے گی تاہم انہوں نے بتایا کہ ویریفیکیشن کا عمل تیز کرنے کیلئے ادارے کو ورک فورس کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔وزیراعلیٰ نے ڈی جی نادرا کی وضاحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مسلسل گھمبیر بننے والے اس حساس معاملے پر دوہفتے بعد نادرا کے علاوہ محکمہ ہائے داخلہ، ریونیو، پولیس اور پاک فوج سمیت تمام وفاقی و صوبائی انٹیلی جنس و سیکورٹی اداروں کا مشترکہ اجلاس پشاور میں بلانے اور صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ہدایت کی نیز واضح کیا کہ وہ اجلاس میں خود شریک ہو کر اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھیں گے اور اس کی روشنی میں صوبائی حکومت کا آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ رول ادا کرنے والے صوبے کے غریب عوام کو دیگر مشکلات کے علاوہ شناختی کارڈ بلاک کی مصیبت میں بھی مبتلا کرنا ظلم و زیادتی کی انتہا ہے جو صوبائی حکومت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ہی خاندان میں پانچ بھائیوں میں ایک بھائی کا شناختی کارڈ بلاک جبکہ دوسروں کے درست ہیں اور اس افسوسناک صورتحال کا سامنا کسی ایک علاقے نہیں بلکہ صوبے کے ہر ضلع حتیٰ کہ گلی محلہ کے لوگوں اور خاندانوں کو درپیش ہے جس سے عوام کی پریشانیوں میں اضافے کے علاوہ اداروں کی جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے اور یہ وفاق کیلئے لمحہ فکریہ اور سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ پرویز خٹک نے کہاکہ اُن کے اپنے علاقے کے ایک محلہ سیلمان خیل میں پورے قبیلے کو افغان قرار دے کر بیشتر لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے ہیں حالانکہ اُن کے آباؤ اجداد صدیوں سے وہاں رہائش پذیر اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وفاق کو اس سلسلے میں ہر قسم کے ابہام سے پاک سسٹم بنانا ہو گا جس پر پوری شفافیت اور درستگی سے عمل کرنا اور بلاک شناختی کارڈوں کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے علاوہ خیبرپختونخوا حکومت کی طرز پر شہریوں کے ہر کام اور خدمات کی تکمیل کا واضح دورانیہ مقرر اور عدم تعمیل پر متعلقہ افسران کی سرزنش اور جرمانوں کا تعین ہونا چاہیئے۔نادرا کی طرف سے بلاک شناختی کارڈوں سے متعلق بعض معروضات اور وضاحتوں پر وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اس ضمن میں میڈیا کے علاوہ شہروں اور دیہات میں گلی محلہ کی سطح پر عوامی آگہی کی مہم چلانی چاہیئے تاکہ عوام کو بلاک شناختی کارڈوں سے متعلق اپنے قصور اور غلطیوں کا علم ہو اور اس کا تدارک بھی کرسکیں۔انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ پندرہ روز بعد اجلاس میں نادرا کی طرف سے بلاک شناختی کارڈ کھولنے سے متعلق واضح پیش رفت کے علاوہ شناختی کارڈ وں کی تیاری سے متعلق شفاف پالیسی اور لائحہ عمل سامنے لایا جائے گا تاکہ شہری کم ازکم اپنی شہریت کے بارے میں تو مشکلات کا شکار نہ ہوں اور اُنہیں اس ضمن میں اطمینان مہیا ہو۔
<><><><><><>