داد بیداد۔۔۔ غر بت مکاؤ فنڈ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

غر بت مکاؤ فنڈ
غر بت مکاؤ کے نام جو فنڈ اور پیسہ آتا ہے وہ غربت میں مزید اضافہ کر تا ہے کیونکہ اس کا فائد ہ غر یب کی جگہ امیر کو پہنچتا ہے تا زہ خبر یہ آئی ہے کہ پاکستان غربت مکاؤ فنڈ خیبر پختونخوا کے بعض پہاڑی اضلاع مثلا ً چترال وغیر ہ میں نیا پراجیکٹ لانے والا ہے ضلع کونسل چترال کے اجلاس میں ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے اس کا انکشا ف کیا اب یہ خبر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آگئی ہے پر اپر ٹی، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ مالکان نے خبر آتے ہی اپنی اپنی مارکیٹنگ شروع کر دی ہے کیونکہ کسی بھی پراجیکٹ کا زیادہ فائد ہ انہی کو ہوتا ہے اب اس بات کا علم نہیں کہ پی پی اے ایف (PPAF) کس طرح کا پراجیکٹ ڈیزائن کریگا؟ اور کس کس کو فائد ہ پہنچا ئے گا؟ ہمارے پاس این جی اوز کے دو ماڈل زیادہ مقبول ہیں پہلا ماڈل یہ ہے کہ شعور، اگاہی اور تعلیم و تربیت کے نام پر ہوٹلوں کو آباد کر کے پراجیکٹ کو ختم کر و، دوسرا ماڈل یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں وسائل دے کر انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر اپنی مددآپ کے تحت کام کر اؤ اور منصو بہ مکمل ہو نے کے بعد کمیو نیٹی کی تنظیم یا کسی سرکاری محکمے کے ہاتھ میں دیدو پہلا ماڈل ناکام ثابت ہوا ہے اس ماڈل سے کمیونیٹی کو فائد ہ نہیں ہوتا پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد کوئی مفید کام نظر نہیں آتا لوگ پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ کے پراجیکٹ نے کیا کام کیا آپ عمر بھر اپنی رپورٹوں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں ایک لطیفہ مشہور ہے کسی پراجیکٹ کے منیجر کاہینڈبیگ گم ہو گیا یہ ہینڈ بیگ سکول کے لڑکوں کو ملا لڑکوں نے خوشی خوشی بیک کھولا اُس میں کاغذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا کسی بھی کا غذ پر ان کو کام کی کوئی تحریر نہیں ملی، بیگ میں ایک ٹافی، ایک چاکلیٹ ایک بال پوائنٹ پن ملا بچوں نے تین چیزیں اُٹھاکر باقی کاغذات بیگ میں ڈالے اور اوپر دیکھا تو مالک کا وزٹینگ کارڈ نظر آیا ایک لڑکے نے کہا یا ر! یہ اُس ”فضول آڈمی“ کا بیگ ہے جو ہمارے گاؤں میں آکر عورتوں کی میٹنگ کراتا ہے حقیقت میں سکول کے بچوں نے اس پراجیکٹ منیجر کو سڑک، پُل، سکول ہسپتال یا پائپ لائن بناتے نہیں دیکھا اس لئے اس کو فضول آدمی قرار دیا اب لوگ پراجیکٹ کے نام سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ چارسالوں کی میٹنگوں کے بعد کوئی آدھ کلومیٹر سڑک نہیں بنتی کوجھولا پُل نہیں بنتا ایسے پراجیکٹ کا کوئی فائد ہ نظر نہیں آتا چترال میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے نہروں کے علاوہ سائفن ایر یگیشن متعارف کرایا پھر مائیکر و ہا ئیڈل پراجیکٹ متعارف کرایا تینوں نظرآتے ہیں کسی بورڈ کے بغیر لوگ ان کا ذکر کرتے ہیں اُن سے فائد اُٹھاتے ہیں اس ماڈل کو چترال ایر یا ڈیو لپمنٹ پراجیکٹ (CADP) اور سرحد ررل سپورٹ پروگرام (SRSP) نے کا میابی کیساتھ اپنا یا چند بڑے منصوبے دیے، چترال بونی روڈ، گرلز ڈگری کالج کی عمارت CADP نے یاد گار چھوڑے سو ئیر پل، سرغوز پل، بمبوریت، مستوج، گولین، شا ئیداس اور دیگر مقامات پر مائیکر و ہائیڈل سیکمیں SRSP کی یاد گارہیں اس طرح ناروے کی حکومت کے تعاؤن سے آنے والا پروگرام CIADP بیحد کامیاب ہوا مگر یو رپی یونین کے فنڈ سے شروع ہونے والا پراجیکٹ CDLD نا کامی سے دوچار ہوا اس طرح صحت کے شعبے میں PPHI اور ماحولیات میں شعبے میں چترال گول نیشنل پارک کے منصوبے کا میاب نہیں ہوئے ان کے ڈیزائن میں نقص تھا پراجیکٹ ڈیزائن کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا کہ ڈیلیو ریبل (Deliverable) کے نام سے جو کام تجویز کئے جاتے ہیں وہ نظر بھی آئینگے یا نہیں؟ اگلے 20 یا 30 سالوں تک کام بھی دینگے یا نہیں؟ پراجیکٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کا کوئی والی وارث بھی ہوگا یا نہیں؟ ماضی کے اچھے تجربات کو سامنے رکھ کر پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ کے مجو زہ پراجیکٹ میں تین باتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا پہلی بات یہ ہے کہ اس کا ہدف انفر اسٹرکچر ہو دوسری اہم بات یہ ہے کہ انفراسٹر کچر کی سکیم شروع کرتے وقت اس کے والی وارث کا تعین کیا جائے یہ سکیم کمیو نیٹی کی تنظیم کو دی جائے گی، سرکاری محکمے کو دی جائیگی یا کسی تیسرے فریق کودی جائیگی سکیم مکمل ہونے کے بعد جس کی ملکیت میں جائے گی وہ تنظیم یا محکمہ پہلے
دن سے اس سکیم کے ساتھ وابستہ ہو جائے اور تکمیل کے بعد اپنے ہاتھ میں لے لے لاوارث نہ چھوڑے Thrive-CIADP نے ضلعی حکومت کو انفرانسٹرکچر بنا کر دیا یہ انفراسٹر کچر سرکاری محکموں کی تحویل میں کا میابی سے کام دے رہاہے سکولوں، ہسپتالوں اور کالجوں میں یہ کام نظرآتے ہیں حفاظتی بند اور دیگر منصوبے یاد گار رہ گئے ہیں اندرازہ یہ ہے کہ PPAF کا بڑا ڈونر اٹلی کی حکومت ہے اگرPPAF کے مجو زہ پراجیکٹ کوانفراسٹر کچر پر فوکس کر کے ڈیزائن کیا گیا تو اس کا بڑا فائد ہ ہوگا موجودہ حالات میں دو باتوں کا خیا ل رکھنابیحد ضروری ہے پہلی بات یہ ہے کہ ویلج کونسل بلدیاتی نظام کی بنیادی اکائی ہے ویلج کونسل کی سطح پر شراکت داری(Partnership) بنانی ہوگی ویلج کونسل کے ناظمین کو پراجیکٹ پر عملدرآمد کا کام سپر د کر نے سے غربت مکاؤ پراجیکٹ کے تمام منصوبے عوام تک پہنچ پائینگے ورنہ ہر منصوبہ سٹیر نگ کمیٹی،اور سائیٹ کمیٹی، مانیٹرنگ کمیٹی، ریو یو کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں کے جال میں پھنس کر نا کامی سے دوچار ہوگا دوسری اہم بات یہ ہے کہ منصوبوں کی منظوری کے کام کو مرکز یت کا شکار ہونے سے بچا یا جائے ایک ویلج کونسل میں آبنوشی سکیم، لنک روڈ، اور قبرستان کی چار دیواری کے تین منصوبے تجویز ہوتے ہیں توپراجیکٹ ریویو کمیٹی میں بیٹھا ہوا سُسر اپنے داماد کے لئے قبرستان کی چاردیواری کو اولین ترجیح قرار دیتا ہے اور آبنوشی کی سکیم کو آخری نمبر پر لے جاتا ہے مقامی سطح کے لوگ منصوبوں کی منظوری دینگے تو زندہ عوام کی ضروریات اور مرحومین کے لئے چار دیواری میں ضرور فرق محسوس کرینگے PPAF کا پرانا ریکارڈ اچھا ہے اُمید کی جاسکتی ہے کہ مجو زہ منصوبے کا ڈیز ائن عوامی خواہشات، عوامی ضروریات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوگا تاکہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد بھی کئی سالوں تک اس کی کامیاب سکیمں لوگوں کو نظر آتی رہیں