دھڑکنوں کی زبان ۔۔ “زخمی ڈی پی او خالد خان “۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

پاسبانوں کی کالی وردی پہنی ہوئی ہے۔یہ وردی عوام کی جان و مال عزت أبرو کے تحفظ کی نشانی ہے یہ پاسبانوں کے بدن پہ سجے وہ مبارک کپڑے ہیں جن سے وفا کی بو آتی ہے جوتحفظ کے پھول ہیں جو امن کی پیشانی کے جھومر ہیں جو یہ پہنتا ہے وہ اپنی فرض منصبی کا مان رکھتا ہے۔اس کے نزدیک دن رات کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے وہ وقت کی اپنی مٹھی بند کرکے آگے بڑھتا ہے راستوں کے کانٹے صاف کرتا جاتا ہے پاسبان خیابان جھڑتا جاتا ہے اور کاروان اس کے پیچھے پیچھے سکون سے روان دوان ہوتا ہے۔۔سیدھی سی بات ہے زخمی ڈی پی او کے بدن پہ سجے یہ کالی وردی آج پاسبان کے خون سے رنگین ہوگئی ہے کپڑوں پہ سجے خون کے یہ دھبے روشنی کے وہ مینار ہیں جو چمکتے ہیں اور ایوان ملک و قوم روشن کرتے ہیں۔آئی جی خیبر پختونخواہ زخمی ڈی پی او کی عیادت پہ جب آۓ توانہوں نے اس کے بڑے بھائی سے پوچھا کہ پریشانی کی کوٸی بات تو نہیں اس نے مسکرا کر کہا سر ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔زخمی ڈی پی او کی آنکھوں میں درد شاہینی ہے ان کے لہجے پہ پیشہ ورانہ عزم ہے۔اس کی پیشانی چمکتی ہے۔انہوں نے حقیقی پاسبان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔اس کا وژن ہے کہ اگر کوئی اس پاک دھرتی،اس کے عوام اور اس کی خوبصورتی پہ غلھ سوچے تو یہ اپنا لہو پیش کرے گا۔۔زخمی ڈی پی او کو اس بات پہ فخر ہے کہ پاک سرزمین کی بنیادوں میں ان کے ابو کا خون شامل ہے اس کے ابو تحریک آزادی میں بنفس نفیس شامل رہا ہے پشاور میں اپنے زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان میں ان کا حصہ ہے۔۔زخمی ایس پی نے صرف خون کا معمولی سا نذرانہ اپنی دھرتی کے لیے پیش کیا ہے۔تھوڑا سا فرض نبھایا ہے یہ اس کی شناخت ہے۔۔بہادر مرتے نہیں ہیں۔۔کبھی زندگی کی بھیک نہیں مانگتے وہ موت سے بھی اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا زندگی سے کرتے ہیں ان کو دہشت گردوں سیگلہ ہے کہ فساد کے لیے صرف پاک دھرتی کیوں چنا جاتا ہے۔یہ دھرتی مخلصوں اور بہادروں سے کبھی خالی نہیں رہا۔اس کو اپنے محکمے پہ،اپنے جوانوں پہ،اپنے أفیسروں پہ،اپنی قوم پہ،قومی نمائندوں پہ اور سارے بہی خواہوں پہ فخر ہے جنہوں نے اس کیلیے نیک خواہشات اور نیک دعاوں کا تخفہ پیش کیا۔۔اس کو کے پی پولیس پہ بجا طور پر فخر ہے ک یہ پیشہ ور بہادروں کا گروپ ہے وہ اپنے پیشے سے جنونیت کی حد تک پیار کرتے ہیں۔وہ اپنی دھرتی کو امن کا تخفہ دینا چاہتے ہیں۔جب اس کے گن مین نے نہایت تاسف سے کہا کہ ساری زندگی اس بات کا افسوس رہے گا کہ گولی ڈی پی او صاحب کو لگی مجھے کیوں نہیں لگی اتفاق سے ان کے ساتھ کرنل خالد بھی اسی مہا کام میں زخمی ہوۓ ہیں۔۔دونوں خالد اپنے خالد بن ولید رض عنہ کی مشن پہ ہیں انہوں نے آخری وقت میں فرمایا تھا کہ سارے بزدلوں کو میرا پیغام دو کہ اگر موت لڑنے میں أتی تو مجھے میدان جنگ میں آتی۔موت اور زندگی دونوں اس رب کاینات کے ہاتھ میں ہیں جو زندگی اور موت دونوں کے خالق ہیں۔۔زخمی ڈی پی او نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے اچھا کیا ہے۔کالی وردی کی لاج رکھ کر اچھا کیا ہے۔۔یہ مرد کوہستانی ہے۔۔پہاڑوں کا شہزادہ پہاڑوں جیسا عزم رکھتا ہے۔اس کے مزاج کی تاپش نے یہ سب ممکن بنایا ہے۔۔کسی شاعر نے کیوں کہا تھا کہ۔۔۔ ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں جب عظیم cause عظیم مقصد کے لیے کوئہ جلد باز ہو گا وہ ستم ظریفی نہیں معیار ہے۔۔زخمی ڈی پی او کے زخم قومی گھاو پہ مرہم ہیں وہ ہزار تندرستوں پہ باری ہے۔۔زخم مندمل ہوجائیں گے۔لیکن ان کی خوشبو نہیں جاۓ گی۔۔۔مجھے زخمی ڈی پی او لکھتے ہوۓ اچھا لگتا ہے کیا ہی خوش قسمت جوان ہوتے ہیں وہ لوگ جو قوم کے لیے ملک کے لیے انسانیت کے لیے زندہ ہوتے ہیں۔ڈی پی او کا پورا خاندان محکمہ پولیس،ان کی تیمار داری کا انتظام تندہی سے کرنے والے ڈی پی او محمد عمران پی اے ٹو آئی جی خیبر پختونخواہ،خیبرپختونخواہ گورنمنٹ،دوستوں بہی خو ایوں کی محبت کے مقروض ہے۔۔ اللہ سب کو اجر عظیم عطا کرے۔۔۔