دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔”بیداری کس کانام ہے “

Print Friendly, PDF & Email

 

اگاہی اور بیداری دو اہم صفات ہیں جو انسان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔بیدار اور اگاہی رکھنے والا انسان زندگی کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہتا ہے اگر بہ حیثیت قوم اگاہ ہو تو اس کے پاس منصوبہ بندی،ترتیب اور تنظیم ہوتی ہے وہ باشعور ہوتی ہے مستقبل بین ہوتی ہے۔۔اگر سچاٸی سے اندازہ لگایا جاۓ تو بہ حیثیت قوم اور بہ حیثیت فرد ہم میں یہ دو اوصاف مفقود ہیں۔ہم بیدار ہیں تو شک پڑتا ہے کہ ہم بیدار ہیں۔بیداری اس کا نام تو نہیں کہ ہمارے سامنے قوی مفاد کی کوٸی حیثیت نہ ہو ذاتی مفاد آڑے آٸیں۔آۓ روز بد عنوانی کی خبریں ہوں اور بہ حیثیت قوم ہم ہاتھ ملتے رہیں۔بیداری اس کا نام تو نہیں کہ سیاست گالی بن جاۓ اور ایک عداوت جنم لے ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاٸیں۔۔بیداری اسے تو نہیں کہتے کہ بھاٸی بھاٸی میں دوری ہو غلط فہیاں پھیل جاٸیں ہم دشمن کی سازش کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پہ تل جاٸیں۔۔بیداری اس کا نام نہیں کہ محافظ کی حفاظت پہ شک ہو پاسبان کی پاسبانی پہ شک ہو۔بیداری اس کا نام نہیں کہ عدالت سے انصاف کی توقع ختم ہوجاۓ قانون کا جنازہ نکالا جاۓ۔بیداری اس کانام نہیں کہ دینی جماعتیں ایک دوسرے کی تاک میں رہیں کہ کہیں کسی سے معمولی کوتاہی سرزد ہوجاۓ تو کفر کے فتوے تک لگیں۔بیداری اسے تو نہیں کہتے کہ جوان بوڑھے کو جوتے کی نوک پہ رکھے بوڑھا جوان سے بے زار ہوجاۓ۔بیداری اسے نہیں کہتے فرض منصبی اور ذمہ داری کی کوٸی اہمیت نہ ہو ڈیوٹی سکینڈری چیز ہو۔غفلت،کام چوری،بد دیانتی،غبن کو حق سمجھا جاۓ۔بیداری یہ تو نہیں کہ اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے آزاد سمجھاجاۓ۔بیداری یہ تو نہیں کہ قوم طبقات میں بٹ جاۓ۔ایک کی عیاشیاں ہوں۔۔ دوسرے پر زندگی تنگ ہو۔ہمدردی، خلوص،غریب پروری،ایثار جیسے اوصاف معاشرے سے ختم ہوجاٸیں۔ہم سب اس کا روناروتے ہیں۔۔ایک سیاسی لیڈر کو اپنے کارکنوں کیذہنوں میں تخریب کی جگہ تعمیر کا تصور اجاگر کرنا چاہیے۔ان کو برداشت،قربانی،صبر کا درس دینا چاہیے۔ان میں صداقت اور امانت جیسی صفات کی اہمیت پیدا کرنا چاہیے۔۔یہی سیاست کا معیار ہے وہ تربیت یافتہ کارکن اگر پارلیمنٹ تک جاۓ تو صداقت کر دیکھاۓ گا اور برملا اپنی پارٹی کے نصب العین کا پرچار کرے گا۔یہ کیسی بیداری ہوٸی کہ تربیت ہی ٹھیک نہیں ہورہی۔أج کل ہم ڈیجیٹل دہشتگردی کہہ کر اپنے آپ کو بد نام کر رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہم میڈیا کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جو دشمنیاں بڑھانے کا آلہ ہے۔۔اگر ہم میں بیداری ہوتی تو یہاں سے مثبت اور قوم کی فلاح و بہبود کا پیام جاتا۔۔ملک و قوم سے محبت کا پیام جاتا۔ایک دوسرے کے احترام کا پیام جاتا۔یہ بیداری کا ألہ تھا یہ ایک لحاظ سے ہماری سبکی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بیداری کے اس زریعے سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہاں سے ہمیں بیداری کا پیام آتا یہ اچھاٸی پھیلانے کا ایک زریعہ ہوتا مگر یہ نفرت کا گڑھ بن گیا۔بیداری معیار چاہتی ہے۔بیدار قومیں زندہ قوم کہلاتی ہیں۔۔ان کو پل پل کا حساب دینا ہوتا ہے لمحے لمحے کی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ہماری یہ عجیب بیداری ہے۔کوٸی اپنے أپ سے مخلص نہیں۔۔ان کے نزدیک ان کے فرض منصبی کا تقدس،ان کے ادارے کا تقدس اور ان کی کارکردگی کا تقدس کوٸ اہمیت نہیں رکھتا۔جب قوم اپس کا اعتماد کھو دے تو سب کچھ کھو دیتی ہے۔ریاست کے جو ستون ہیں ان کا اعتماد مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیۓ۔فوج، عدلیہ، انتظامیہ۔۔۔۔تین مضبوط ہاتھ جو جڑ جاٸیں تو دنیا کی کونسی طاقت ہیجو ان ہاتھوں کو ایک دوسرے سے الگ کرے۔۔کیا خوب ضرب المثل ہے۔۔۔ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی۔۔۔یہی بیداری کہ یہ ہاتھ مضبوط ہوجاٸیں۔۔کیا یہ ممکن ہے ایک غیرت مند ناقابل تسخیر فوج کسی ملک کے پاس ہو۔۔ایک مضبوط عدلیہ ہو ایک بہترین انتظامیہ ہو اور وہ ملک ترقی نہ کرے فوج کے پیچھے ایک مضبوط قوم ہو۔۔وہ لڑنے میں سستی کرے۔۔ایک بہترین انتظامیہ قوم کے پاس ہو اور وہ قوم ترقی میں کسی سے پیچھے ہو۔یہی بیداری ہے کہ قوم اپنی ان کمزوریوں سے اگاہ ہو اور اپنے أپ کو ان کوتاہءوں سے پاک کرکے ناقابل تسخیر کرے۔۔۔