دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”یوم پاکستان کی تقریبات اور میرے آنسو“۔

Print Friendly, PDF & Email

کہتے ہیں آزاد قومیں اپنے قومی دن بڑے دھوم دھام سے مناتی ہیں یہ ان کی ایک لحاظ سے شناخت ہوتے ہیں۔۔۔ہمارے ہاں بھی بہت سارے قومی دن ہیں جو ہم بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔۔ 23 مارچ کا دن بھی ہمارا قومی دن ہے ہم ہر سال یہ دن بڑی شان سے مناتے ہیں۔۔اس بار میرے سکول میں داخلی امتحانات موسم کی خرابی اور خود صحت کی خرابی کی بنا کوٸی خاص پروگرام نہ بنا سکا خود سکول بھی نہ جاسکا۔۔سویرے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھارہا۔۔ملک کے دارالحکومت میں اس شاندار تقریب کااہتمام کیاگیا تھا۔۔کالی جیب آکے رکی۔۔فضاٸیہ کا سربراہ پریڈ گراونڈ میں داخل ہوا۔۔سلامی کے چبوترے میں داخل ہوا پھر کالی جیپ آٸی نیوی کا سربراہ گاڑی سے اترے چبوترے میں داخل ہوۓ۔۔پھر گاڑی آکے رکی بری فوج کا سربراہ اترے۔۔۔پھر جاٸن اف سٹاف کمیٹی کا سربراہ تشریف لاۓ۔۔پھر وزیر اعظم تشریف لاۓ پھر صدر مملکت کا قافلہ نمودار ہوا۔۔پھر تقریب کا مہمان خصوصی برادر ملک سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد تشریف لاۓ ان کا استقبال کیا گیا۔۔میرے آنسو اس وقت بہنا شروع ہوۓ جب میرے ملک کی افواج کے چاق و چوبند دستے میدان میں چٹان کی طرح کھڑے تھے۔۔میں نے سوچاوہ ملک کتنا خوش قسمت ہوگا ایسی مضبوط،منظم اور بہادر فوج ہوگی۔۔پریڈ کا معاٸینہ شروع ہوا سٹیج سکریٹری صاحبان جابجا تعارف اور تعریفیں کر رہے تھے۔قران کے حوالے اقبال کی شاعری اور قومی نظموں سیاقتباسات سنارہے تھے۔شہدا کی تعداد ہررجمنٹ کی تاریخ اور کارنامے دھرا رہے تھے۔جدید ہتھیاروں کی بہت خوبصورت نماٸش تھی۔جوانوں کی پرفارمنس دیدنی تھی۔ان کو دیکھ کر بجاطور پر فخر ہورہا تھا۔وہ سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے گۓ اور میرے آنسو بہتے رہے یقیناانسان جذباتی ہوتا ہے۔صدر پاکستان کا مختصر خطاب تھا۔فضا کے شاہینوں کی قلابازیاں تھیں۔۔پھر کلچر شو۔۔۔ہم اس تقریب کے زریعے اپنا آپ دنیا کو دیکھا رہے تھے۔اس ملک خداداد میں ان سب کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے لیکن حقیقت کی آنکھیں دھری کی دھری رہتی ہیں۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں فوج نہیں قومیں لڑا کرتی ہیں اگر فوج کے پیچھے مضبوط اور مخلص قوم ہو تو مشکل سے مشکل جنگ جیتی جاسکتی ہے۔۔بہت پیچھے نہ جاٸیں افعانستان ہمارے سامنے ہے اس چٹان قوم نے چالیس سال بے سروسامانی میں جنگ لڑی آج ان کی حالت ہم سے بہتر ہے۔۔۔لازم ہے کہ جنگ پہاڑوں دریاٶں جنگلوں اورسرحدوں میں لڑی جاتی ہے محلوں میں نہیں۔ایک بندہ جس کو دنیا جنرل کہتی ہے اگر لڑنے پہ آجاۓ تو پہلی گولی اس کے سینے میں لگتی ہے البتہ وہ یہ مقدس جنگ اپنے ملک اور قوم کے لیے لڑتا ہے ایسی قوم جس میں قومی غیرت اورحمیت ہوتی ہے۔وہ قربانی دینے میں اس سپاہی اور جنرل سے پیچھے نہیں ہوتی۔لیکن ایسی قوم جو ملک کو کھنگال کردے۔۔قرضوں پہ پلے۔۔خود اشرافیہ نام رکھ کے عیاشیاں کرے اپنے اقتدار کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاۓ۔۔ترقی کی بجاۓ تنزل کا شکار ہو۔ایسی قوم کے لیے ان شیردل جوانوں کی شیر دلی بھی کام نہیں آتی۔۔بھیگ منگے قوم جو ٹکڑوں پہ پل رہی ہو اس کی کس نہج پہ دفاع ہو۔۔ایک عظیم ملک جو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہوں اس کی کس کس محاذ پہ حفاظت ہو۔۔ہم اس تقریب کے زریعے بے شک دنیا کو دیکھا رہے ہیں کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں لیکن ہم قرضوں کی ری شیڈولنگ کو بھی کامیابی سمجھ رہے ہیں ہم کرپشن کو ہنر کہہ رہے ہیں۔ہم اقربا پروری کو سپرٹ بتا رہے ہیں۔۔ہم ایک ملک میں رہتے ہیں اس میں”اپنے لوگوں“ ”اپنی پارٹی“ اور ”اپنے کارکنوں“ کا کیا تصور ہے۔جو جس چیز کا مستحق ہے وہ ”اپنا“ ہے۔یہ سوچتے سوچتے میرے آنسو رک جاتے ہیں کہ افعانستان کا وزیر اعظم پلاسٹک کا چپل پہنتا ہے۔برطانیہ کا وزیر اعظم کراۓ کے فلیٹ میں رہتا ہے۔جرمنی کی چانسلر خود کھانا پکاتی ہے۔۔چائنہ کے صدر کے پاس کوٸی جاٸیداد نہیں۔ان کے ہاں ڈسپلن ہے۔۔۔وہ منظم ہیں۔۔ان کی منزل اور نقطہ نظر ہے۔۔نوجوانوں کا چاق و چوبند دستہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود منظم ہوں اور ان کے پیچھے ایک مضبوط اور منظم قوم کھڑی ہو تب جا کے ان جوہر کھلتے ہیں۔ہمارے ہاں سب کچھ ہے ان سے فاٸدہ اٹھانے والا، ان کو استعمال میں لانے والا،خود احتسابی اور وسیع ترقومی مفاد کو اہمیت دینے والارہنما کی ضرورت ہے۔ مجھے میرے جوان اوران پھول جیسے جوانوں کاخون یاد آتا ہے ان کی قربانیاں یادآتی ہیں میرے آنسو موتی بن جاتے ہیں۔یہ میراملک ہے۔۔یہ میرے جوان ہیں۔۔ ہم سب پر اللہ کا سایہ جلوہ فگن ہو۔۔۔اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں۔۔۔۔۔۔زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں۔۔۔۔