داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔سما جی ذرائع ابلاغ
چنگیز خان اور ہلا کو خان کے دور میں ریڈیو بھی نہیں تھا اخبار بھی نہیں تھا ہٹلر کے دور میں ریڈیو آیا تھا اخبارات چھپتے تھے اس لئے اس کا دور کا فی مشکل ثا بت ہوا، اس پر لا کھو ں یہودیوں کے قتل عام (ہو لو کاسٹ) کا الزام لگا یا گیا جو اب تک مو ضوع بحث ہے آج کا دور چنگیز خان اور ہٹلر کے ادوار سے لا کھ گنا مختلف ہے ریڈیو، اخبارات اور ٹیلی وژن کے بعد ٹویٹر، انسٹا گرام، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع ابلا غ نے دنیا کی سات ارب آبادی کو ایک گاوں یا محلے میں محصور کر دیا ہے، ڈو نلڈ ٹرمپ اس دور کی گرفت سے نہ بچ سکا نریندرا مو دی اس دور کی گرفت میں آگیا ہے جہاں کہیں بھی کوئی حکمران اُٹھ کر چنگیز خان، ہلا کو خان یا ہٹلر کی نقل اتار نا شروع کرتا ہے پوری دنیا اس کی مذمت میں یک زباں ہو جا تی ہے اور اُس کا بچنا مشکل ہو جا تا ہے اکیسوی صدی میں ذرائع ابلا غ کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جا تا ہے ریڈیو اور ٹیلی وژن کو الیکٹرا نک میڈیا کا نا م دیا گیا ہے، اخبارات کو پرنٹ میڈیا کہا جا تا ہے ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور فیس بک کے لئے سوشل میڈیا یعنی سما جی رابطے کے ذرائع ابلا غ کا نا م استعمال ہو تا ہے تازہ ترین صورت حا ل یہ ہے کہ سوشل میڈیا ریڈیو اور ٹیلی وژن سے بھی آگے نکل گیا ہے اخبارات کو بھی اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور کسی بھی برائی کو بے نقاب کرنے میں اس کی طاقت کو تسلیم کیا گیا ہے 2010اور 2011میں افریقہ اور ایشیا کے عرب ملکوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے انقلا ب لا نے کی تحریکیں چل پڑیں جنکو ربیع العرب کا نا م دیا گیا اس نا م کا انگریزی تر جمہ عرب سپر نگ (Arab Spring)کے نا م سے مشہور ہوا، جس کو اردو اخبارات نے بہار عرب کا نا م دیا اس تحریک میں تیو نس، مصر، یمن، شام اور سعودی عرب انقلا بات کی لپیٹ میں آگئے چند سالوں تک افرا تفری، خانہ جنگی، اور طوائف الملو کی کے بادل چھا گئے پھر یہ بادل چھٹ گئے، 2010میں یہ گما ن کیا جا تا تھا کہ عرب سپرنگ دیگر مما لک کو بھی متا ثر کرے گی، لیکن یہ گما ن غلط ثا بت ہوا عرب سپرنگ عرب کے اندر بھی پاوں جما نے میں کامیا ب نہ ہو سکی مصر اور تیو نس میں اس کا برا حشر ہوا شام اور یمن میں بھی اس کا تیا پا نچہ ہوا، سعودی عرب میں اس کو سر اٹھا نے سے پہلے کچل دیا گیا اس کے باوجود ایک مو ثر اور با اثر طبقے کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا بہت بڑی قوت ہے، بہت اہم ہتھیا ر ہے بہت طاقتور دوست ہے جس کو کام میں لا کر بڑے بڑے معرکے سر کئے جا سکتے ہیں تا ہم یہ تجربہ اب تک کامیا بی سے ہم کنار نہیں ہوا اس کی چار موٹی مو ٹی وجو ہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا میدان میں آکر مقابلہ نہیں کر تی، قالین کے نیچے، الما ریوں کی اوٹ میں کا م کر تی ہے، میدان جنگ کا اصول یہ ہے جب آپ فضا ئی بمباری اور چھا پہ مار کار وائی کے ذریعے دشمن کو کمزور کریں تو زمین پر آپ کی طاقتور فوج ہو نی چاہئیے جو اس کا میا بی کے ثمرات کوسمیٹ کر آپ کی جھو لی میں ڈال سکے،سوشل میڈیا دشمن کو کمزور کر تی ہے کا میا بی کے ثمرات سمیٹنے کی صلا حیت نہیں رکھتی دوسری وجہ یہ ہے کہ دو بدو لڑا ئی اور مقا بلے میں آپ اپنی فو ج کی صف بندی کر تے ہیں سو شل میڈیا میں ایسا نہیں کر سکتے نیز آپ دشمن کی ساخت، سائز اور طاقت اور اپنی کمزوری کا اندازہ نہیں کر سکتے یہ آپ کو غلط فہمی یا خو ش فہمی میں مبتلا کر دیتی ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ سو شل میڈیا کے ذریعے اہداف تک رسائی ممکن نہیں یہ ایسی طاقت ہے جو ہوائی گولی چلا تی ہے اور ہوا ئی فائرنگ آپ کو شیخ چلی تک لے جا تی ہے منزل تک نہیں پہنچا تی چو تھی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی میدان میں مقا بلے کے لئے آپ کو اپنی فو ج یا گروپ کی صف بندی کرنی ہو تی ہے سوشل میڈیا میں صف بندی کا کوئی امکان نہیں آپ کا ایک سپا ہی سنگا پور سے گو لی چلا رہا ہے دوسرا سپا ہی جو ہنسبرگ سے فائر کھو لتا ہے باقی سپا ہی یورپ اور امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کس سپا ہی کی عمر کتنی ہے؟ اس کا تجربہ کتنا ہے ضرورت کے وقت وہ آپ کے کا م آبھی سکتا ہے یا نہیں تجزیہ نگا روں نے عرب سپر نگ کی نا کا می سے یہ چار نتا ئج اخذ کئے پا کستان میں تحریک انصاف نے 2013ء میں سوشل میڈیا کو ازمایا مگر کا میا بی حا صل نہیں ہوئی 2018میں قبائلی سرداروں پر تکیہ کیا تو کامیا بی ملی یہ بڑا سبق تھا پا کستان کے معروضی حا لات میں سما جی رابطے کے ذرائع ابلا غ کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کر سکتیں یہاں ایسی طاقتوں سے کام لینا ہو تا ہے جو زمین پر مو جو د ہوں۔