داد بیداد ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔بیجنگ اور واشنگٹن میں قر بتیں
تازہ خبروں میں سے ایک یہ خبر ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن میں قربتیں آگے بڑھ رہی ہے کم و بیش 6سال کی گو مگوکے بعد دونوں دارلحکومتوں سے با ہمی تعلقات میں دوبارہ گرم جو شی کی خبریں آرہی ہیں چینی وزارت خار جہ کے تر جمان نے واضح کیا ہے کہ چینی قیا دت امریکی عوام کو حریف نہیں بلکہ شراکت دار اور دوست سمجھتی ہے ادھر واشنگٹن میں امریکی وزیر خا ر جہ انتھو نی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ چین کو ایک اکا ئی کا در جہ دیتا ہے امریکی حکومت کسی بھی طور پر سرد جنگ یا کشید گی نہیں چا ہتی ہم دونوں ملکوں کے مفاد میں مثبت شراکت داری کی بنیا د پر معا شی، تجارتی اور سفارتی تعلقات میں گرم جو شی کے خواہاں ہیں اس معا ملے میں کسی کو شک و شبہ یا ابہام کا شکا ر نہیں ہو نا چا ہئیے بین لاقوامی تعلقات کے ضمن میں 1950سے 1990تک چالیس سالوں کو سرد جنگ کا زما نہ کہا جا تا تھا اس زما نے میں دو بڑی طاقتیں امریکہ اور سویٹ یو نین ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے پر اپنی توا نا ئیاں صر ف کر تی تھیں دونوں طاقتوں نے عالمی سطح پر اپنے اپنے گروپ بنا کر دنیا کی قوموں کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا، کولمبو پلا ن، سیٹو، سینٹو، بغداد پیکٹ اور نیٹو اتحا د کے نا م سے مختلف قو موں کی تنظیمیں و جود میں آئیں سویت یونین نے مشرقی یو رپ کے مما لک کا الگ بلاک قائم کیا رد عمل کے طور پر غیر وابستہ مما لک کی الگ تنظیم قائم ہوئی اُس زما نے میں کہا جا تا تھا کہ دنیا میں دو قطبی طاقتوں کا توازن قائم ہے 1990میں سویٹ یو نین کے حصے بخرے ہوئے، تو دنیا پر ایک قطبی طاقت یعنی امریکہ کی حکمرا نی قائم ہوئی نیٹو اتحا د کا چر چا عام ہوا جس ملک پر بھی امریکہ نے حملہ کیا نیٹو کے 30ممالک کی فو جوں کو لیکر حملہ کیا کم و بیش 30سال یہ سلسلہ جا ری رہا اس اثنا میں عوامی جمہوریہ چین نے دنیا میں اپنی اقتصادی اور فو جی طاقت کا لو ہا منوا لیا سویت یو نین کے ملبے سے روس اٹھ کھڑا ہوا عالمی امور میں روس نے جگہ جگہ امریکہ کو چلینج کیا، ایران، شام اور یمن کی مثا لیں ہمارے سامنے ہیں شما لی کو ریا بھی روس کی پشت پنا ہی کی و جہ سے امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے تجزیہ نگا روں نے مو جو دہ عالمی صورت حا ل کو کثیر قطبی طاقتوں کے توازن کا شاخسانہ قرار دیا ہے ایک طرف روس ہے دوسری طرف امریکہ ہے، تیسری طرف چین ہے تینوں عالمی معا ملا ت میں اپنا اپنا الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں اور تینوں کو عالمی طاقت کا در جہ حا صل ہے 2016ء میں امریکہ کے اندر ری پبلکن پارٹی کی حکومت آنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹر مپ نے چین کے ساتھ محاذ ارائی کا راستہ اختیارکیا تھا اس محا ذ ارائی میں ٹر مپ انتظا میہ نے چین کے مقا بلے میں تائیوان کی حما یت کا عندیہ دیا سفارتی اور فو جی سطح پر تائیوان کو چین کے مقا بلے پر لا نے کی غیر دانشمندانہ پا لیسی اختیار کی تھی اس و جہ سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں سر د مہری آگئی تھی بائیڈن انتظا میہ نے اس سرد مہری کو ختم کر کے دونوں مما لک کو ایک بار پھر قریب لا نے کی پا لیسی اختیار کی ہے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے پا کستان کی شروع سے یہ پا لیسی رہی ہے کہ چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ دوستا نہ تعلقات کو متوازن سطح پر رکھا جا ئے چین نے پا کستا ن کو ٹیکنا لو جی کے میدان میں مدد فراہم کی ہے دفاعی پیدوار کے شعبے میں پا کستان کو خود کفیل بنا نے میں تعاون کیا ہے، امریکہ نے معا شی محاذ پر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے پا کستان کی مدد کی ہے مستقبل میں چین اور امریکہ کے تعلقات میں گر م جو شی کا براہ راست فائدہ پا کستان کو پہنچے گا۔