یوم آزادی کے روز کالاش ویلی بمبوریت اور مضافات میں بارش ہوئی جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر برساتی نالوں میں سیلاب آیا۔ اور ایون بمبوریت روڈ چار گھنٹے تک بند رہا

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) یوم آزادی کے روز کالاش ویلی بمبوریت اور مضافات میں بارش ہوئی جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر برساتی نالوں میں سیلاب آیا۔ اور ایون بمبوریت روڈ چار گھنٹے تک بند رہا۔ سیلاب نے آوونگ، ٹیوش، وادوس گاؤں میں فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچایا اور سیلابی ملبے نے روڈ بند کر دی جس کی وجہ سے سینکڑوں سیاح مختلف مقامات میں پھنس گئے۔ جن میں بڑی تعداد سیاح خواتین اور بچوں کی تھی۔ تاہم مقامی دیہات کے لوگوں نے پھنسے ہوئے سیاحوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی اور اپنی بساط کے مطابق خوراک، پانی اور پھلوں سے اُن کی مہمان نوازی کی۔ جبکہ کئی سیاحوں کے گروپ روڈ سائڈ پر ہی لنگر لگا کر اس مشکل کو ایک پر لطف تفریح میں تبدیل کر دیا۔ اور یہ سلسلہ چار گھنٹے تک جاری رہا۔ تاہم مقامی لوگوں،چترال پولیس اور سیاحوں کی مشترکہ کوششوں سے روڈ چار گھنٹے بعد عاضی طور پر بحال ہوا۔ اور مسافر اپنے منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ روڈ بند ہونے سے سیاحوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ بعض سیاح ایسے مقامات میں پھنس گئے تھے۔ جہاں اوپر پتھروں کے گرنے اور سیلاب کا خطرہ تھا۔ اور وہ خوف کے عالم میں تھے۔ سڑک تنگ ہونے اور ڈرئیوروں کی عدم برداشت کی وجہ سے جابجا گاڑیاں ایک دوسرے میں پھنس گئیں۔ تاہم ٹریفک پولیس کی رہنمائی اور ہدایات نے اس مشکل پر قابو پالیا۔ اور سڑک کھلنے کے بعد ٹریفک پولیس نے گاڑیوں کی لائن بندی کروائی۔ جس پر گاڑیوں کے گزرنے میں آسانی ہوئی۔ سڑک پر کئی ایسے ٹریفک پولیس آفیسرز اور پولیس کے جوانوں کو دیکھا گیا۔ جو مسافروں کیلئے راستہ بناتے ہوئے کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ اور کئی پولیس کے جوان کھانے پینے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے بھوک سے بھی نڈھال تھے۔ تاہم انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سہولت دینے کی کوشش کی۔ جس پر سیاحوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او چترال وسیم ریاض، چترال پولیس خصوصا ٹریفک پولیس کی تعریف کی اور کہا۔ کہ چترال پولیس ایک سیاح دوست، پُر خلوص اور ذمہ دار پولیس ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ تاہم مقامی لوگوں نے ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد سے مطالبہ کیا ہے۔ کہ سابق ڈپٹی کمشنر چترال رحمت اللہ وزیر نے اے این پی کے دور صوبائی حکومت میں ان علاقوں کیلئے ٹریکٹر خرید لئے تھے۔ تاکہ ایسے ہنگامی وقت پر وہ کام آسکیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے۔ کہ آج اُن ٹریکٹر ز کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کہوہ کہاں ہیں اور کس کی زیر نگرانی ہیں اور وہ ٹریکٹر اگر اس قسم کے ہنگامی حالات میں ملبہ ہٹانے کے کام نہیں آتے۔ تو پھر وہ کس مرض کی دوا ہیں ۔ انہوں نے ڈی سی چترال سے اپنی اولین فرصت میں ان ٹریکٹرز کے بارے میں انکوائری کا مطالبہ کیا۔ ۔ اور کہا کہ ان کو عوام اور حکومت کے کام میں لایا جائے۔