ترقیاتی سکیموں اور سر کاری افسروں کو وطن پاک میں قو می غبارے کا در جہ حا صل ہے دونوں ہو اکے رحم و کرم پر ہیں بقول استاد ذوق دونوں کا یہ حال ہے کہ ؎
لائی حیات آئے قضالے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہر آنے والی حکومت اپنی کلہاڑی کا پہلا وار سر کاری افسروں پر چلاتی ہے ساتھ ساتھ سر کاری تر قیاتی سکیموں پر بجلیاں گراتی ہے ہمارے ہاں اسلامی فلاحی ریاست، جمہوریت اور عوامی فلاح بہبود کے نعرے صرف نعرے کی حد تک قا بل قبول ہیں عملی زندگی میں ان نعروں کو کبھی پذیرائی کے قا بل نہیں گر دا نا گیا شنید ہے کہ 25جولائی 2018کے بعد آنے والی حکومت نے سابقہ دور میں پلاننگ کمیشن، ایکنک (ECNEC)،سی ڈی ڈبلیو پی (CDWP)اور دیگر فورموں سے بڑے محنت کے بعد منظور ہونے والی سکیموں کو بند کردیا ہے اس بندش میں بعض صو بوں کے تمام منصوبے اور بعض صو بوں کے اکثر منصوبے آگئے ہیں اس طرح سر کاری افسروں کی تبدیلیوں کا بڑا ریلا آنے والا ہے کچھ ٹریلر جاری کر دئیے گئے ہیں خبر یہ بھی ہے کہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں بعض سکیموں اور بعض افیسروں کے حوالے سے کھینچا تانی اور رسہ کشی عروج پر ہے سکیموں کے بارے میں بڑ اسوال یہ ہے کہ کس نے منظوری دی؟ افیسروں کے بارے میں اہم بحث یہ ہے کہ کس کا بندہ ہے؟ بندے سے مراد منظور نظر لیا جاتا ہے جس کو انگریزی میں Blue eyed کہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پا کستان میں ہر آنے والی حکومت بنیادی ڈھا نچے کی سکیموں کو کیوں بند کر تی ہے؟ سر کاری افیسروں پر کس لئے کلہا ڑی چلاتی ہے؟ ایک غیر ملکی صحا فی نے یہ سوال بار بار پوچھا تو پاکستانی دوست نے الٹا سوال داغ دیا کہ امریکہ، بر طانیہ، فرانس، اور جر منی میں نئی حکومت کیا کر تی ہے؟ غیر ملکی کھلکھلا کر ہنس پڑے اور بولے وہی کرتی ہے جو اس کو کر نا چاہیئے یعنی عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل قومی بہبود کے کا موں میں پیش رفت اور ملک کے انتظامی ڈھا نچے کا استحکام یہ تینوں کام ہر نئی حکومت کی پہلی تر جیحات میں شامل ہو تی ہیں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے پاس سرکاری ملا زم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہو تا اگر وہ ایسی سر گر می میں ملوث پا یا گیا تو اس کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے سر کاری افیسروں کی ٹیم سسٹم کو مظبوط کر تی ہے قا نون پر عملدرآمد کو یقینی بنا تی ہے اور ملک کو استحکام دیتی ہے نہ جا نے والی حکومت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہو تا ہے نہ آنے والی حکومت اس کو چھیڑ تی ہے اس طرح تر قیاتی منصوبوں پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا امریکی صدر دنیا کا طا قتور ترین حکمران ما نا جا تا ہے مگر وہ ایک ہزار ڈالر کا کوئی منصوبہ دینے کا مجاز نہیں اگر وہ سڑک، پل یا کسی عمارت کے منصو بے کی منظوری میں ملوث پا یا گیا تو پارلیمنٹ کے اندر اس کا مو ا خذہ ہو تا ہے جو impeachmentکہلا تاہے امریکہ اور بر طا نیہ میں صدر یا وزیر اعظم یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں کا ونٹی، ضلع یا حلقہ سے میری پار ٹی کو ووٹ نہیں ملا اس لئے اس کا ونٹی یا ضلع یا حلقہ کی تر قیاتی سکیموں کو ختم کروامریکہ اور یورپ کے کسی بھی جمہو ری ملک کا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں افیسر کو سابقہ حکومت نے اس پو سٹ پر لگا یا تھا اس کی شکل دفع کروکسی جمہوری معاشرے میں ایسی باتوں کی کوئی گنجا ئش نہیں غیر ملکی اخبار نویس اس وقت مزید حیران ہو ا جب پاکستانی دوست نے اس کو اور اندر کی بات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ گزشتہ 3ہفتوں میں سر کاری افیسروں کے تبادلوں کی متعد فائلیں گر دش میں ہیں جب ایک فائل پر تبدیل ہونے والے افیسروں کے نا موں میں دسویں بار تر میم و اضا فہ کرکے اسے مجاز حا کم کی میز پر پہنچا یا جا تا ہے تو یکا یک ایک وزیر یا ایم این اے یا ایم پی اے آجا تا ہے وہ اس میں اپنی مر ضی کی چار مزید ترامیم کر وانے کیلئے فا ئل کو واپس بھجوا دیتا ہے 30افیسروں کی تبدیلی ہوتی ہے تو میرٹ پر ان میں سے ایک بھی جگہ نہیں پا تا کوئی کسی کا منظور نظر ہو تاہے تو کوئی کسی اور کا لاڈلا ہو تاہے اس طرح تر قیاتی سکیموں کی منظورشدہ فائلیں واپس کی جا تی ہیں کیونکہ مو جودہ حکمران کو یہ سکیمیں پسند نہیں ہیں غیر ملکی صحا فی پو چھتا ہے تمہارے ہاں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ پاکستانی دوست کہتا ہے۔ بات سیدھی ہے تمہارے ہاں قانون، اصول اور قاعدہ، ضابطہ چلتا ہے، ہمارے ہاں ذاتی پسند اور نا پسند کی فرمان روانی ہے تمہارے ہاں ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر تر جیح دینے کا حلف اُٹھا یا جا تاہے ہمارا حلف اس کے بر عکس ہے تمہا ر ا حکمران ملک کے لئے اور عوامی مفاد کے لئے حکومت میں آتا ہے، ہمارا حکمران صرف اپنی ذات کے لئے اپنے کنبے اور اپنے چند اچھے کار آمد دوستوں کے لئے اقتدار میں آتا ہے یہ سن کر غیر ملکی اخبار نویس افسوس کا اظہار کر تاہے اور پوچھتا ہے تمہارا ملک اب تک کس طرح سلامت ہے؟ پاکستانی دوست کہتا ہے سلامت کب ہے اس کا ایک بازو کٹ چکا ہے دوسرا کٹنے والا ہے پھر بھی اللہ پاک نے اس کو محفوظ رکھا ہو اہے جی ہاں! وطن عزیز کی ہر آنے والی حکو مت تر قیاتی منصو بوں اور سر کاری افیسروں کو غباروں سے زیا دہ اہمیت نہیں دیتی غبارے کی کیا حیثیت ہو تی ہے شمال سے ہو اآئی جنوب کی طر ف لے گئی،جنوب سے ہو ا کا جھونکا آیا شمال کی طرف دھکیل دیا
با زیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہو تاہے شب و روز تما شا میرے آگے
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات