ؔ
یہ بابِ خیبر کی خبر ہے صدر مملکت نے پولیس اور عدالتوں کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک وسیع کرنے کے قانون پر دستخط کر دیئے ہیں اس قانون کے تحت وزرات سفیران کی طرف اعلامیہ جاری ہوگا جس میں صدارتی حکم کی رو سے پولیس ایکٹ 1861 اور پاکستان کے عدالتی نظا م کا دائرہ قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا ایک کرورڑ عوام پر دس بارہ لوگوں کی بادشاہت ختم ہو جائیگی افغان سرحد سے ملحق 45 ہزار مر بع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کی عملداری میں آجائے گا نو شہرہ،چارسدہ اور مر دان کے عوام کو آئین کے تحت اظہار رائے،تعلیم،صحت،علاج معالجہ،سماجی ترقی اور معاشی آسودگی کے جو حقوق حاصل ہیں وہ تمام قبائلی علاقوں کے ایک کروڑ عوام کو حاصل ہونگے حیات آباد کی جدید بستی سے دو کلومیٹر آگے جاکر قانون کا ڈائرہ ختم نہیں ہوگا جمرود کا نوجوان بھی صوابی کے نوجوان کی طرح پختون،پاکستانی اور مسلمان ہونے پر فخر کرے گا خیبر کا ڈپٹی کمشنر لوگوں سے ڈر کر پشاور میں دربار نہیں لگائے گا وزیرستان کا ڈپٹی کمشنر عوام کے خوف اورغیض و غضب سے بچنے کیلئے ٹانک اور بنوں کی طرف نہیں بھاگے گا ایک کروڑ عوام کو غلام بنا کر 200 مخصوص افراد کھرب پتی بننے کا دھندہ نہیں چلاسکینگے فاٹا کے نام پر سکرٹریٹ،فاٹا کے نام یونیورسٹی،فاٹا کے نام پر کیڈیٹ کالج فاٹا سے سینکڑوں کلومیٹر دور قائم نہیں کئے جائینگے فاٹا کا نام خوف کی علامت نہیں بنے گا،تیراہ،راجگال،سدہ،پاڑہ چنار،میر علی،ٹوچی،رزمک اور باجوڑ کو بھی مری،سوات،ہنزہ،گلگت،سکردو اورچترال کی طرح سیاحتی مقامات کا درجہ حاصل ہوگا قبائلی علاقوں کی ہمہ جہت ترقی اور قبائلی عوام کی خوشحالی کی طرف یہ پہلا قدم ہے اس کے بعد ایسے ہی قانون کے تحت قبائلی عوام کو خیبر پختونخواکی صوبائی اسمبلی میں بالغ رائے دہی کی بُنیاد پر نمائندگی دی جائیگی صوبائی کابینہ میں قبائلی عوام نمائیندوں کو حصہ ملے گا 25 وزیروں میں کم از کم 6 وزراء قبائلی علاقوں سے لئے جائینگے قبائلی عوام کو پہلے مرحلے میں 40 ہزار ملازمتیں ملینگی افغانستان کے ساتھ لگنے والی سرحد سربمہر کر دی جائیگی کابل،جلال اباد اور دیگر شہروں سے بھارتی دہشت گردوں کا داخلہ بند ہوگا افغانستان کے اندر بھارتی قونصل خانے کھنڈرات کا منظر پیش کرینگے ان کا دفتری کاروبار دہشت گردوں کی بھرتی،ان کی تربیت اور ان کو سرحد پار کرواکر پاکستان بھیجناہے اوپر جو لکھا گیا یہ وہ حقائق ہیں جو قبائلی علاقوں میں بچے بچے کی زبان پر ہیں سب کو معلوم ہیں سب کے علم میں ہیں مگر نیاقانون کیسے ممکن ہوا یہ ایک راز ہے اس میں سب سے اہم کردار آرمی چیف جنرل باجوہ نے ادا کیا انہوں نے قبائلی علاقوں کو بندوبستی اضلاع میں شامل کرنے کی راہ میں حائل روکاوٹ دور کردی کورکمانڈر پشاور جنرل نذیر بٹ نے قبائلی علاقوں تک پاکستان کے آئین اور قانون کو توسیع د ینے کی حمایت کر دی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلح افواج کی قیادت کا اعتماد حاصل کیا رواج ایکٹ،ریفارمزبل اور دیگر سیاسی راستوں سے گریز کر کے قانون کو صدارتی حکم کے ذریعے نافذ کرنے کا راستہ اختیار کیا مخالفین کی زبان بند کردی اور قبائلی علاقوں پر 70 سالوں سے لگا ہوا داغ ”فاٹا“دور کرنے کی راہ ہموار کردی فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم کر کے باہر سے آنے والے دہشت گردوں کیلئے راستہ ہموار کرنے کا فائدہ تین قسم کے عناصر کو ہوتا تھا بھارت،امریکہ اور افغانستان کا اتحاد فاٹا مین قانون کی عملداری نہ ہونے سے پھر پور فائدہ اُٹھاتا تھا پنجاب اور سندھ میں سمگلروں کا طاقتورگروہ مو جود ہے یہ گروہ قبائلی علاقوں میں قانون نہ ہونے کا فائدہ اُٹھا کر سالانہ کھربوں ڈالرکا مال ادھر اُدھر کر تا تھا اس کا الزام پختونوں پر آتا تھا بدنامی قبائلی عوام کی ہوتی تھی تیسرا طبقہ سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ میں ہے یہ مخصوص طبقہ قبائلی علاقوں میں قانون نہ ہونے کا فائدہ اُٹھا کر راتوں رات ارب پتی بنتا تھا قبائلی علاقوں میں قانون کی عملداری آئی،آڈٹ کا نظام آیا پولیس ایکٹ نافذ ہوا عدالتیں قائم ہوگئیں تو اس گروہ کی دال نہیں گلے گی یہ گروہ ”بے روز گار“ہوجائے گا انگریز سات سمندر پا ر سے آیا تھا وہ عیسائی یا یہودی تھا قبائلی عوام کو غلام رکھنے کے لئے اس نے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے نام سے اپنا ایک قانون بنایا تھا پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947 ء کو FCR ختم ہونا چاہیے تھا مگر مخصوص گروہوں نے اپنے مفادات کیلئے 70 سالوں تک FCR کا دفاع کیا اب خداخدا کر کے کفر ٹوٹا ہے پولیس ایکٹ 1861 کا نفاذ اور عدالتوں کے دائرہ کار کی توسیع فاٹا کیلئے نیک شگون ہے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے اب باران رحمت ہوگی اور قبائلی عوام کو غلامی سے آزادی ملے گی بابِ خیبر کی خبر بہت بڑی خبر ہے۔