داد بیداد۔۔غر نا طہ اور الحمرا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ہسپانیہ کے شہروں میں غر نا طہ قدیم اور جدید طرز تعمیر کا حسین مر قع ہے الحمرا نا م کا محل اس شہر کے شمال میں ایک پہا ڑی پر بنا یا گیا ہے اس کے متوا زی بائیں طرف دوسری پہا ڑی پر البیثی کے نا م سے مسلمانوں کی بستی ہے پندرھویں صدی میں جب اندلس کی اسلا می سلطنت کو زوال آیا تو یہاں مسلمانوں کی آبادی 30لا کھ تھی 9صدیاں گذر نے کے بعد مسلمانوں کی آبادی 5لا کھ رہ گئی ہے لا کھوں مسلمان شہید کئے گئے لا کھوں کو ملک چھوڑ نے یا مر تد ہونے پر مجبور کیا گیا غر نا طہ شہر مسلمانوں کا شہر تھا یہاں مسلمانوں کی آبادی سکڑ کر 10ہزار رہ گئی ہے البیثی میں جدید طرز کی مسجد تعمیر ہوئی ہے الشیح عبد القادر کوفی ؒ کے مریدوں نے اس مسجد کا انتظام سنبھا لا ہوا ہے ، شہر کے مر کزی مقام پر ایک یا د گار بنا یاگیا ہے جو 1492عیسوی میں مسلمانوں کے خلا ف عیسائیوں کی کا میا بی اور ملکہ ازا بیلہ کی طرف سے کر سٹو فر کو لمبس کو انڈیا کے بحری سفر پر روانہ کر نے کی یا د دلا تا ہے یا د گار کے پلیٹ فارم پر فوارہ ہے فوارہ کے ساتھ ملکہ ازا بیلہ اور کر سٹو فر کولمبس کا مجسمہ ہے، چاروں پہلوؤں پر عیسائی جنگجووں کے مجسمے ہیں جدید شہر کی یہ بڑی یا د گار ہے، شہر کے مر کزی مقامات سے البیثی اور الحمراکے لئے بسیں چلتی ہیں بڑی بسیں بھی ہیں چھوٹی بسیں بھی ہیں الحمرا کے ٹکٹ ایک ہفتہ یا 5دن پہلے آن لائن لینا پڑتا ہے محل کی سیر اپنے طور پر کی جا ئے تو لمبی قطار میں کھڑے ہو کر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے گائیڈ کے ذریعے جا نے والوں کو قطار میں لگنا نہی پڑ تا فاروق نے 10سیا حوں کے گروپ میں گائیڈ کے ساتھ ٹکٹ لیا تھا الحمرا کے صدر دروازے پر گائیڈ نے بتا یا کہ دروازے کے اوپر 30فٹ کی بلند ی پر دیوار میں ہاتھ کی تصویر بنی ہوئی ہے یہ حضرت فاطمہ الزہرا کا ہا تھ ہے مو سیٰ بن نصیر نے یہ ہاتھ بنوا یا تھا، عیسائیوں کے قبضے کے بعد اس کو اکھاڑ ا نہیں گیا اس کے نیچے 20فٹ کی بلندی پر پا دریوں نے بی بی مر یم کا مجسمہ بنوا دیا تاکہ اس پر پا پائیت کی چھا پ نظر آئے چنا نچہ دونوں مو جود ہیں، الحمرا واحد قلعہ نہیں بلکہ کئی قلعوں پر مشتمل شہر ہے نصیری محل سے متصل عالیشان مسجد تھی جس کو گر جا گھر میں تبدیل کیا گیا ہے، محل میں داخل ہو کر سات مختلف حصوں کا باری باری تعارف کیا جاتا ہے سب سے پہلے انتظا ر گاہ یا استقبا لیہ آتا ہے اس کے بعد امرا ئے سلطنت کے بیٹھنے کی جگہ ہے جسے دیوان عام کہا جا تا ہے، اس کے بعد سلطان کے دربار عام کی جگہ ہے، پھر سلطان کے تحت کی جگہ ہے پھر سلطان کا حرم ہے، ہر حصے میں کھلا صحن ہے جس میں صاف اوربہتے پا نی کا تا لاب بنا یا گیا ہے، فواروں سے پا نی تالاب میں گرتا ہے، محل کی دیواروں اور چھتوں پر اسلا می آرٹ کے نا در نمو نے دیکھنے کو ملتے ہیں قرآن پا ک کی آیا ت کریمہ کی خطا طی خط کو فی میں بھی ہے خط نسخ اور نستعلیق میں بھی ہے ہر کمرے میں اور ہر بر آمد ے میں جو خطا طی ہے ان میں سب سے نما یاں اموی خلیفہ کا مقبول و مشہور طعرہ ہے ”ولا غا لب الا اللہ“ خط کوفی میں اس کو پڑھنا مشکل ہے البتہ نسخ اور نستعلیق میں صاف پڑھا جاتا ہے قرآنی دعائیں بھی خطا طی میں آئی ہیں عرب اور مرا کش کے مسلمان شعرا، کے چیدہ اشعار بھی ہیں، دیواروں پر نقش و نگار کا باریک اور نا زک کام ہوا ہے یہ کام سادہ بھی ہے رنگوں میں بھی ہے محل کے مر کزی صحن کے ارد گرد برآمدوں میں 124منقش اور مر صع ستون ہیں سرو سمن کے سدا بہار در خت اور گل یا سمین کی بیلیں ہر صحن اور دلان میں لگائے گئے ہیں جو محل کے حسن کو چار چاند لگا تے ہیں الحمرا کا رقبہ بہت وسیع ہے اس رقبے میں امرا کے گھر، روساء کی رہا ئش گاہیں بھی ہوا کر تی تھیں، مختلف پیشوں سے وابستہ کا ریگروں کے لئے صنعت گاہیں یا ور کشاپ بھی بنے ہوئے تھے ان کو مسمار کیا گیا ہے، محل کے ہر حصے میں خو ب صورت با غات ہیں، محل کے اندر با پر دہ حرم کا التزام رکھا گیا تھا اسلا می تعلیمات کی پا بندی اور اسلا می ثقافت کی پا سداری محل کی ایک ایک اینٹ سے صاف نظر آتی ہے مہمانوں کو ٹھہرا نے کا انتظام شاہی محل سے الگ حصے میں تھا، الحمرا کو سپین کی حکومت نے قومی ورثہ قرار دیا ہے اور اس کا انتظام حکومت کے ہا تھ میں ہے، امومی خلا فت کے زوال کو اب 900سال ہو چکے ہیں الحمرا کا آب و تاب پندر ھویں صدی کی طرح قائم ہے علا مہ اقبال نے 1933ء میں غر نا طہ کا دورہ کیا، الحمرا میں گھوم پھر کر مسلمانوں کے درخشان ما ضی کو یا د کر کے بے اختیار ان کی زبان پر آیا ہو گا غر نا طہ بھی دیکھا میری آنکھوں نے و لیکن تسکین مسا فر نہ سفر میں نہ حضرمیں اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا و جو د عشق سرا پا دوام جس میں نہیں رفت و بود