داد بیداد۔۔سفارتی پیش بندی۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

خبر یہ ہے کہ افغا نستان کی امارت اسلا می دریا ئے چترال پر بندھ باندھ کر پا نی کارخ تبدیل کر نے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے منصو بے کا ابتدائی خا کہ تیار کیا گیا ہے جس کے مطا بق کو ناڑ (Kunar) ڈیم سے بنجر زمین بھی سیراب ہو گی سستی بجلی بھی پیدا کی جا ئیگی گویا مجوزہ ڈیم کثیر المقاصد منصو بہ ہے اس کے نتیجے میں پا کستان کا ورسک ڈیم متاثر ہو گا اور پشاور کی زر خیز مٹی نہری پا نی سے محروم ہو جا ئیگی یہ دونوں کوناڑ ڈیم کے نتا ئج اور اثرات ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ افغا نستان سفارتی محاذ پر کا میابی دکھا رہا ہے پا کستان نے کوئی سفارتی پیش بندی نہیں کی سفارتی زبان میں اس کو پرو ایکٹیو اپروچ (Proactive approach) کہا جا تا ہے بین لاقوامی دریاوں کا ایک قانون ہے کسی ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے والے دریا پر دونوں مما لک کے برابر حقوق ہوتے ہیں ایران اور افغانستان کے درمیاں دریاوں کا معاہدہ 1973ء میں ہوا تھا اب تک اُس پر عمل ہورہا ہے پا کستان اور بھارت نے سندھ طاس معا ہدہ کیا ہے مگر بھارت مسلسل اس معا ہدے کی خلا ف ورزی کر تا ہے پا کستان سفارتی محاذ پر کوئی آواز نہیں اٹھا تا سندھ طاس معا ہدے کی خلاف ورزیوں پر خا موشی اختیار کرنا بھی دفتر خارجہ کا سفارتی جرم ہے افغا نستان کے ساتھ 76سالوں میں بین لاقوامی دریا وں کا طاس معاہدہ نہ ہونا اپنی جگہ الگ جرم ہے پا کستان اور افغانستان کے درمیاں جو 9دریا مشترک ہیں ان دریاوں پر محقق اور دانشورڈاکٹر شکیل حیات نے قلم اٹھا یا ہے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون نے اس موضوع پر تفصیلی فیچر سٹوری شائع کی ہے اگر خبروں کا پس منظر دیکھا جا ئے تو صاف نظر آتا ہے کہ امارت اسلا می افغا نستان نے شما لی افغا نستان کے لئے بڑا جا مع منصو بہ ترتیب دیا ہے تا جکستان سے ہو کر افغان سرزمین میں داخل ہونے والے دریا ئے آمو پر بندھ باندھ کر قاش ٹیپا کنال 285کلو میٹر لمبی نہر ہے اس پر 2022میں کام شروع ہوا یہ نہر صو بہ بلخ کی السوالی کا لدار سے شروع ہوتی ہے، اس کے بعد دوسرا منصو بہ کوناڑ ڈیم ہے دریا ئے چترال پا کستان کے شمال میں چیا نتر (Chiantar) گلیشر سے شروع ہوتا ہے 410کلو میٹر جنوب میں جا کر اراندو کے مقام پر افغانستان کے صوبہ کوناڑ (Kunar) میں داخل ہوتا ہے جلا ل اباد کے مقام پر دریائے کا بل کے ساتھ جا ملتا ہے اور مہمند میں آکر دوبارہ پا کستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے کا بل کہلاتا ہے اٹک کے قریب دریائے سندھ میں گرنے کے بعد یہ سندھ طاس کا حصہ بن جا تا ہے لیکن بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا جو معا ہدہ ہوا اُس میں دریائے کا بل کونظر انداز کیا گیا اب افغان حکومت کی نئی کوشش نے اس دریا کو نقشے پر نما یا ں کیا ہے پا کستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے 3دریا، گومل کرم اور چترال افغانستان میں سے ہو کر بہتے ہیں بلو چستان سے 6دریا پشین، قندہار، کند، کدانائے، عبد الوہاب اور قیصر کے نا موں سے پہچانے جا تے ہیں اور افغانستان میں داخل ہو تے ہیں بلو چ دانشور جا ن اچکزئی نے دریا وں پر ایک طرفہ قبضے کی افغانی کو شش کے خلا ف ذرائع ابلاغ میں زوردار احتجاج کیا ہے خیبر پختونخوا کی طرف سے مکمل خا موشی ہے پا کستان کی حکومت یا سول سوسائیٹی اس پر آواز اٹھا ئے تو اس کے لئے دو متبا دل تجا ویز ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ افغانستان کو بین لاقوامی اصولوں کے تحت پا نی کے معا ہدے پر اما دہ کر کے باقاعدہ معا ہدہ کیا جا ئے تا کہ دونوں مما لک اپنے اپنے حصے کا پا نی استعمال کریں ایسا ممکن نہ ہو ا تو پا کستان کوسرنگوں کی جدید ٹیکنا لو جی کے ذریعے اپنے دریا وں کا رخ تبدیل کرنا پڑیگا اس صورت میں دریائے چترال ایک سرنگ سے گذر نے کے بعد دیر اور سوات سمیت ملا کنڈ اور نشیبی میدانوں کو سیراب کرے گا جبکہ 10ہزار میگا واٹ بجلی بھی پیدا ہو جائیگی۔