داد بیداد۔۔ایک اچھی مثال۔…۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

دنیا بھر میں اچھی مثا لوں کو تلا ش کر کے ہر اچھی مثال کا فنی جائزہ لیا جا تا ہے اس کے مختلف پہلووں پر الگ الگ بحث کی جا تی ہے انگریزی میں اس کو ”کیس سٹڈی“ کا نا م دیا جا تا ہے یہ تحقیقی کام ہو تا ہے اس پر ڈگری ملتی ہے اور پھر اس کام کو سماجی شعبے کے علوم میں جگہ دی جا تی ہے انتظا می امور کے تر بیتی نظام میں، انسانی وسائل کی ترقی کے علمی اور تحقیقی اداروں میں ایسی مثا لوں کو نصاب کا حصہ بنا یا جا تا ہے پا کستانی شخصیات میں عبد الستار ایدھی، کر کٹر سعید انور اور معیشت دان ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت کئی لو گوں پر اچھی مثا لوں کی کیس سٹڈیز اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں آج کے اخبارات میں ایک ایسی اچھی مثال کی خبر بیسویں مر تبہ آئی ہے اور یہ بیس سالوں کی لمبی کہا نی ہے کہانی ایسی ہے جو بار بار دہرانے کے قابل ہے ایک مخیر شخصیت 2003سے اپنے ضلع کے سکولوں سے میٹرک کے سالانہ امتحا ن میں امتیازی نمبر لیکر اول، دوم اور سوم آنے والے طلباء اور طالبات کو لا کھوں روپے کے نقد انعامات دیتے ہیں انعام کی رقم اتنی ہو تی ہے کہ طالب علم کے تعلیمی اخراجات کا قابل ذکر حصہ اس انعام سے ادا ہو سکتاہے یہ انعام طالب علم کے لئے باعث فخر بھی ہو تا ہے اور اس کے تعلیمی اخراجات میں معا ون بھی ہو تا ہے انعا مات ایک پُر وقار تقریب میں تقسیم کئے جا تے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ جس مخیر شخصیت نے اس سلسلے کا اجراء کیا وہ تقریب میں شریک نہیں ہوتا پس منظر میں رہتا ہے انعام اور ایوارڈ کا نا م بھی اپنے نام پر نہیں رکھا بلکہ اس کو اقراء ایوارڈ کا نا م دیا ہے جو نزول قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہے یہ واقعہ کسی بڑے شہر یا شہری ضلع کا نہیں، خیبر پختونخوا کے پہا ڑی ضلع چترال کا ہے اور اس اچھی مثال کے پس منظر میں ایک عالم دین قاری فیض اللہ چترالی کا نا م آتا ہے اور اس نا م کے ساتھ دو چار ایسی مثا لیں آتی ہیں جو نادر و نا یا ب مثا لوں میں شمار ہو تی ہے اکتو بر 2002ء میں اقراء انعا مات کا اعلان ہوا تو سارے ضلع کے سکولوں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا مئی 2003ء میں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا تو معلوم ہو گیا کہ پرائیویٹ سکولوں کے طلباء اور طا لبات نے میدان مارلیا ہے کسی سرکاری سکول کو ایک بھی اعزاز نہیں ملا، اس پر قاری صاحب نے کہا کہ سرکاری سکولوں کے لئے الگ اور نجی سکولوں کے لئے الگ انعامات رکھے جائینگے چنا نچہ ایسا ہی ہوا پھر قاری صاحب کو بتایا گیا کہ کالاش اقلیت میں سے کوئی طالب علم یا طالبہ اول آنے والوں میں شامل نہیں قاری صاحب نے کہا کا لاش اقلیت کے لئے سالانہ خصوصی انعام رکھا جائے گا جو انہی میں فرسٹ آنے والے کو دیا جا ئے گا چنا نچہ ہر کیٹیگری کا اول انعام 50ہزار، دوسرا انعام 40ہزار اور تیسرا انعام 30ہزار رکھا گیا، کا لاش اقلیت کے لئے 20ہزار کا خصوصی انعام رکھا گیا ہر سال تقسیم انعامات کی تقریب میں دو الگ ایوارڈ کسی بھی شعبے میں نما یاں کام کرنے والوں کو دیئے جا تے ہیں بیسویں اقراء ایوارڈ کی تقریب ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر میل محمود غزنوی کی صدارت میں منعقد ہوئی ڈپٹی کمشنر محمد علی خان مہمان خصوصی اور ڈی پی او اکرام اللہ مہمان اعزاز تھے اس سال انعام لینے والوں میں گورنمنٹ ہائی سکول کشم، گورنمنٹ ہائی سکول کوشٹ، گورنمنٹ ہائی سکول کوغذی، دی لینگ لینڈ سکول، فرنٹئیر کور پبلک سکول اور گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت کے طلباء اور طالبات کے نام آئے تھے خصوصی انعامات کے لئے آنسہ صباحت رحیم بیگ اور مو لانا عبدا لحی کے نا م لئے گئے اس مو قع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی محمد علی خان نے کہا کہ اقراء ایوارڈ کے پس منظر میں رہ کر اتنا بڑا کام کرنے والی شخصیت قاری فیض اللہ چترالی کے لئے پرائڈ آف پر فارمنس کے سول اعزاز کی سفارش کی جائیگی، تقریب سے خطاب کرنے والوں میں خطیب شاہی مسجد چترال مولانا خلیق الزمان، ڈی پی او اکرام اللہ، صدر مجلس محمود غزنوی، ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی اور دی لینگ لینڈ سکول کی پرنسپل مس کیری شو فیلڈ شامل تھیں ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ علم مومن کی میراث ہے جہاں سے ملے اس کو حا صل کرلے اچھی مثال بھی ایسی ہی چیز ہے جہاں سے ملے اور جیسی بھی ملے اس کو اپنانا چاہئیے اس کی تقلید کرنی چاہئیے۔