داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔زمین اور شہری منصو بہ بندی

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔زمین اور شہری منصو بہ بندی
محکمہ بلدیات نے خیبر پختونخوا کی 124تحصیل میو نسپل ایڈ منسٹریشنز (TMAs) میں زمین کے استعمال اور شہری سہو لیات کی منصو بہ بندی کا مر بوط پرو گرام جا ری کیا ہے پرو گرام کے مطا بق ہر تحصیل کابلڈنگ انسپکٹر منصو بہ بندی کا ذمہ دار ہو گا دو اسسٹنٹ بلڈنگ انسپکٹر اس کی معاونت کرینگے پرو گرام کے تحت کوئی سر کاری اور نجی عمارت نقشے کی منظوری کے بغیر تعمیر نہیں ہو گی اور نقشہ کی منظوری کے چار بڑے شرائط اور بیس ذیلی شرائط ہونگے بڑے شرائط میں پہلا شرط یہ ہو گا کہ عمارت کے لئے فا فائیر بریگیڈ اور ریسکیو کی گاڑی کا راستہ کدھر ہے؟ دوسری شرط یہ ہو گی کہ عمارت کے سامنے پارکنگ لا ٹ کتنی وسیع ہے کیا عمارت کے اندر دستیاب کمروں کے لحا ظ سے پا رکنگ لا ٹ مو زوں ہے یا نہیں؟ تیسری شرط یہ ہوگی کہ عمارت سے سیوریج کا پا نی کہاں جا ئے گا کیا نکا سی کا منا سب انتظام ممکن ہے یا نہیں؟ چوتھی اور سب سے اہم شرط یہ ہو گی کہ زلزلہ، سیلا ب آنے اور آگ لگنے کی صورت میں لو گوں کو با ہر نکا لنے کے محفوظ راستے رکھے گئے ہیں یا نہیں؟ ہر شرط کے ذیلی شرائط بھی ہیں ٹی ایم اے کا عملہ نقشے کی منظوری موقع کا معائنہ کئے بغیر نہیں دے گی پہلا معائینہ یہ دیکھنے کے لئے ہو گا کہ مو قع پر جو زمین دکھا ئی گئی ہے اس کے راستے اور سیو ریج لا ئن کا بندو بست کس قدر مو زوں ہے؟ اربن انجینرنگ کی اصطلا ح میں اس کو لینڈ یو ز پلا ننگ کہتے ہیں علم جعرافیہ میں اس کے الگ ما ہرین ہو تے ہیں جب ٹی ایم اے کا متعلقہ شعبہ مو قع کا معائینہ کر کے فنی اور تکنیکی بنیا دوں پر تسلی کرے گا تو نقشہ منظور ہو گا ورنہ نقشہ منظور نہیں ہو گا اس طرح کی منصو بہ بندی وقت کی ضرورت تھی پشاور کی نوا حی بستیوں میں ان شرائط پر عمل کئے بغیر جو عما رتیں بن چکی ہیں وہ پکی ہو نے کے باوجود کچی بستیوں کا نمو نہ پیش کر تی ہیں 2کروڑ روپے کی عظیم الشان عمارت بنی ہے ڈیڑھ لا کھ روپے کرایہ پر چڑھا یا گیا ہے راستہ اتنا تنگ ہے کہ فائر بریگیڈ اور ریسکیو کی گاڑی نہیں آسکتی چھوٹی کار آگئی تو پار کنگ کی جگہ نہیں واپس مڑ نے کا راستہ نہیں سیوریج کے پا نی سے گلی بھری ہوئی ہے اس پا نی کو با ہر نکا لنے کا انتظام نہیں تحقیق کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس عمارت کا نقشہ ایک دفتر سے منظور ہوا تھا افیسر کے پا س موقع پر جا کر معا ئنہ کرنے کا وقت بھی نہیں تھا گاڑی بھی نہیں تھی مروجہ دستور میں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی نقشے منظوری کے لئے جمع کئے جا تے تھے جب چار پا نج سو نقشے جمع ہو تے متعلقہ افیسر دو چار دن لگا کر دستخط کر دیتا تھا دوسرے کمرے میں مہر یں لگا ئی جا تی تھیں اور سائلین کو حوالے کئے جا تے تھے نئی عمارت کی تعمیر کے لئے بنیا دی شرائط کا کوئی ذکر نہیں ہو تا تھا صو بے کے مر کزی قصبوں کے ساتھ ساتھ شما لی اور جنو بی قصبوں میں بھی یہی صورت حا ل ہے جو صو بائی دار الحکومت کی نو احی بستیوں میں نظر آتی ہے گذشتہ 50سالوں کے اندر عالمی اداروں کے تعاون سے کئی بار شہری منصو بہ بندی کے اچھے اچھے پرو گرام اور پر اجیکٹ لا ئے گئے جن میں شہری منصو بہ بندی کے عالمی معیار کو سامنے رکھ کر عوامی نمائیندوں اور سرکاری حکام کو ٹریننگ دی گئی ما سٹر پلا ن بنا ئے گئے یا دش بخیر جا وید صاحب رورل ڈیو لپمنت کے دبنگ افیسر تھے ٹریننگ اور ورکشاپ سے خطا ب کر تے ہوئے وہ بر ملا اظہار کر تے کہ یہ عالمی معیار کی باتیں ہیں ان کا تکیہ کلا م تھا ”گورا ما مو ں کہتا ہے“ وہ عالمی معیا ر کی باتوں کو ہر وقت گورا ما موں کے فر مودات کی صورت میں سامعین کے گوش گذار کرتاتھا اور گورا ما مو ں کے جا نے کے بعد وہ سارا پرو گرام یا پرا جیکٹ ایک الما ری میں بند کر کے رکھا جا تاتھا یہ کسی اور کے ساتھ برائی نہیں بلکہ خود اپنے ساتھ بے وفائی تھی محکمہ بلدیات کا تازہ ترین منصو بہ گورا ما موں کا لا یا ہوا پرا جیکٹ نہیں ہماری اپنی حکومت کا منصو بہ ہے اس لئے اس کی کامیا بی کے امکا نا ت روشن ہیں اگر پا لیسیوں کا تسلسل نہ ٹو ٹا تو شہری منصو بہ بندی کا مجوزہ پر وگرام کا میا بی سے ہم کنا ر ہو گا۔