دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”ستارے کی قسم“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”ستارے کی قسم“
ستارہ روشنی کا استعارہ ہے اور روشنی حق کا استعارہ ہے۔۔قران نے حق کو نور اور ناحق کو اندھیرا کہا۔۔امت مسلمہ کا تعارف کراتے ہوتے ہو?ی کہ وہ لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف لاتے ہیں۔ضرب المثل ہے ”سانچ کو آنچ نہیں“ امت مسلمہ کو پہلا سبق سچ کا پڑھایا جاتا تھا۔سچ کی مثالیں دی جاتی تھیں قصے سنا? جاتے تھے گھر میں، گلی کوچوں میں اور کلاس روم میں سچ کا سبق پڑھایا جاتا۔سکول میں کسی کی شکایت لگتی تو استاد کی بازپرس پر کہا جاتا ”سر یہ جھوٹ بول رہا ہے“ اور جھوٹ کی تحقیق ہوتی سچ ثابت نہ ہوتا تو سزا دی جاتی۔۔یہ جڑ ہییہ ابتدا ہے یہاں سے خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔والدین اولاد کو سچ بولنے کا کہتے ہیں خود جھوٹ بولتے ہیں اساتذہ شاگردوں کو سچ کی نصیحت کرتے ہیں خود جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔وہ ما?یں کہیں چلی گ?یں جو قمیص کے نیچے اشرافیاں چھپا کر کہتی تھیں ”بیٹا! جھوٹ مت بولو“ وہ ما?یں کہیں چلی گ?یں جو تنبیہ کرتیں ”جھوٹ بولنے سے زبان پہ دانہ نکلتا ہے“ اور بات بات پہ زبان دیکھانے کا کہتیں۔اب ستارے کی قسم کیا کھا?یں؟ ستارہ فضا کی وسعتوں میں غا?ب ہوگیا ہے ہم جھوٹ کے اندھیروں میں ٹامک ٹو?یاں کھا رہے ہیں۔ستارے کی قسم ستارہ روشنی ہے اور روشنی حق ہے وہ حق جو حکمران کی کرسی بچاتا ہے آفیسر کی آبرو بچاتا ہے قوم کی ساکھ بچاتا ہے ملکوں کی سرحدیں بچاتا ہے فرد کی عظمت بچاتا ہے۔یہ روشنی جب پھیل جا? تو امن سکون اور خوشحالی ساتھ آتی ہیں غیرت اور عصبیت سر کا تاج بنتے ہیں۔ایوان میں سچ بولا جاتا یے تو ایوان جگمگا اٹھتا ہے دفتروں میں سچ بولے جاتے ہیں تو دفتر شرافت کی خوشبو سے معطر ہو جاتے ہیں۔کلاس روم میں سچ بولا جا? تو قوموں کی بنیادوں میں سیسہ پگھلا کے ڈالی جاتی ہے گھر میں سچ بولا جا? تو گھر برکتوں سے بھر جاتے ہیں امتحان ہال میں سچ بولا جا? تو صلاح?تیں پرورش پانے لگتی ہیں۔ستارے کی قسم یہ سچ روشنی ہے کو?ی سا?نسدان اصل میں سچ کی تلاش کر رہا ہے اور پھر ثابت کر رہا ہے خلا?ی مسافر سچ کی تلاش میں پرواز کر رہا ہے اگر راستے سے واپس آکر کہہ دے کہ میں چاند پرگیا تھا تو اس کی زبان پہ دانے نکلیں گے۔دنیا میں سچ کی حکمرانی ہے۔ہماری سیاست کے ناخدا،ہماری کرسیوں کیمالک، ہماری عدالتوں کیقاضی، ہماری تعلیم و تربیت کے میر، ہمارے گھروں کے سربراہ اگر سچ کو شعار بنا?یں تو ہر طرف روشنی پھیلے گی۔۔اعتراف جرم نہیں معیار ہے۔غلط کام کرنے والے اعتراف کریں چوری کرنیوالے اعتراف کریں غبن کرنے والے اعتراف کریں اقرابا پروری کرنے والے اعتراف کریں تو جرموں کا نام ونشان مٹ جا? گا معاشرہ امن کا استعارہ بن جا? گا۔ستارے کی قسم ہم اس روشنی سے محروم ہیں۔ہم زندہ اورترقی یافتہ قوموں کی طرف بھی دھیان نہیں دیتے جن کا ضمیر اس سچ کی روشنی سے جگمگا رہی ہے۔اگر کام میں صداقت نہ ہو اگر باتوں میں صداقت نہ ہو اگر کردار میں صداقت نہ ہو تو اعتبار اٹھ جاتا ہے شک کی نگاہیں تعاقب کرتی ہیں۔آج ہمیں بھیک بھی بمشکل سے ملتی ہے قرض دیتے ہو? لوگ کتراتے ہیں یہ قرض غلط استعمال کریں گے یہ وعدے کے مطابق واپس نہیں کر سکیں گے ان کے ہاں سچ کی روشنی مفقود ہے۔ہم نے اپنی شناخت کھو دی ہے ہم نیامت مسلمہ کی پیشانی پہ سچ کا جھومر گنوا دیا ہے۔ہم خود اس روشنی سے محروم ہیں اور اپنی نسلوں کو محروم کر رہے ہیں ہم فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر تبصرے نہیں سن سکتے ہمارے بچے سراپا سوال بن جاتے ہیں ہم سوشل میڈیا میں اپنوں سے نالان رہتے ہیں۔اگر ہم آج سے سچ بولنا شروع کریں تو روشنی واپس آجا? گی اور ہمارے سینوں کو چمکا? گی۔۔فخر موجودات ﷺنے ایک صحابی رض سے فرمایا ”جھوٹ مت بولنا“۔۔صحابی گھر گ?۔۔اگر کسی کوتاہی کا ارادہ ہوتا سوچتا۔۔رسول مہربان ﷺ کوکیا جواب دوں۔۔سارے گناہ چھوٹ گ?۔۔ستارے کی قسم سچ روشنی ہے اور ہماری کامیابی کی کلید بھی۔۔
ستارہ روشنی کا استعارہ ہے اور روشنی حق کا استعارہ ہے۔۔قران نے حق کو نور اور ناحق کو اندھیرا کہا۔۔امت مسلمہ کا تعارف کراتے ہوتے ہو?ی کہ وہ لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف لاتے ہیں۔ضرب المثل ہے ”سانچ کو آنچ نہیں“ امت مسلمہ کو پہلا سبق سچ کا پڑھایا جاتا تھا۔سچ کی مثالیں دی جاتی تھیں قصے سنا? جاتے تھے گھر میں، گلی کوچوں میں اور کلاس روم میں سچ کا سبق پڑھایا جاتا۔سکول میں کسی کی شکایت لگتی تو استاد کی بازپرس پر کہا جاتا ”سر یہ جھوٹ بول رہا ہے“ اور جھوٹ کی تحقیق ہوتی سچ ثابت نہ ہوتا تو سزا دی جاتی۔۔یہ جڑ ہییہ ابتدا ہے یہاں سے خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔والدین اولاد کو سچ بولنے کا کہتے ہیں خود جھوٹ بولتے ہیں اساتذہ شاگردوں کو سچ کی نصیحت کرتے ہیں خود جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔وہ ما?یں کہیں چلی گ?یں جو قمیص کے نیچے اشرافیاں چھپا کر کہتی تھیں ”بیٹا! جھوٹ مت بولو“ وہ ما?یں کہیں چلی گ?یں جو تنبیہ کرتیں ”جھوٹ بولنے سے زبان پہ دانہ نکلتا ہے“ اور بات بات پہ زبان دیکھانے کا کہتیں۔اب ستارے کی قسم کیا کھا?یں؟ ستارہ فضا کی وسعتوں میں غا?ب ہوگیا ہے ہم جھوٹ کے اندھیروں میں ٹامک ٹو?یاں کھا رہے ہیں۔ستارے کی قسم ستارہ روشنی ہے اور روشنی حق ہے وہ حق جو حکمران کی کرسی بچاتا ہے آفیسر کی آبرو بچاتا ہے قوم کی ساکھ بچاتا ہے ملکوں کی سرحدیں بچاتا ہے فرد کی عظمت بچاتا ہے۔یہ روشنی جب پھیل جا? تو امن سکون اور خوشحالی ساتھ آتی ہیں غیرت اور عصبیت سر کا تاج بنتے ہیں۔ایوان میں سچ بولا جاتا یے تو ایوان جگمگا اٹھتا ہے دفتروں میں سچ بولے جاتے ہیں تو دفتر شرافت کی خوشبو سے معطر ہو جاتے ہیں۔کلاس روم میں سچ بولا جا? تو قوموں کی بنیادوں میں سیسہ پگھلا کے ڈالی جاتی ہے گھر میں سچ بولا جا? تو گھر برکتوں سے بھر جاتے ہیں امتحان ہال میں سچ بولا جا? تو صلاح?تیں پرورش پانے لگتی ہیں۔ستارے کی قسم یہ سچ روشنی ہے کو?ی سا?نسدان اصل میں سچ کی تلاش کر رہا ہے اور پھر ثابت کر رہا ہے خلا?ی مسافر سچ کی تلاش میں پرواز کر رہا ہے اگر راستے سے واپس آکر کہہ دے کہ میں چاند پرگیا تھا تو اس کی زبان پہ دانے نکلیں گے۔دنیا میں سچ کی حکمرانی ہے۔ہماری سیاست کے ناخدا،ہماری کرسیوں کیمالک، ہماری عدالتوں کیقاضی، ہماری تعلیم و تربیت کے میر، ہمارے گھروں کے سربراہ اگر سچ کو شعار بنا?یں تو ہر طرف روشنی پھیلے گی۔۔اعتراف جرم نہیں معیار ہے۔غلط کام کرنے والے اعتراف کریں چوری کرنیوالے اعتراف کریں غبن کرنے والے اعتراف کریں اقرابا پروری کرنے والے اعتراف کریں تو جرموں کا نام ونشان مٹ جا? گا معاشرہ امن کا استعارہ بن جا? گا۔ستارے کی قسم ہم اس روشنی سے محروم ہیں۔ہم زندہ اورترقی یافتہ قوموں کی طرف بھی دھیان نہیں دیتے جن کا ضمیر اس سچ کی روشنی سے جگمگا رہی ہے۔اگر کام میں صداقت نہ ہو اگر باتوں میں صداقت نہ ہو اگر کردار میں صداقت نہ ہو تو اعتبار اٹھ جاتا ہے شک کی نگاہیں تعاقب کرتی ہیں۔آج ہمیں بھیک بھی بمشکل سے ملتی ہے قرض دیتے ہو? لوگ کتراتے ہیں یہ قرض غلط استعمال کریں گے یہ وعدے کے مطابق واپس نہیں کر سکیں گے ان کے ہاں سچ کی روشنی مفقود ہے۔ہم نے اپنی شناخت کھو دی ہے ہم نیامت مسلمہ کی پیشانی پہ سچ کا جھومر گنوا دیا ہے۔ہم خود اس روشنی سے محروم ہیں اور اپنی نسلوں کو محروم کر رہے ہیں ہم فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر تبصرے نہیں سن سکتے ہمارے بچے سراپا سوال بن جاتے ہیں ہم سوشل میڈیا میں اپنوں سے نالان رہتے ہیں۔اگر ہم آج سے سچ بولنا شروع کریں تو روشنی واپس آجا? گی اور ہمارے سینوں کو چمکا? گی۔۔فخر موجودات ﷺنے ایک صحابی رض سے فرمایا ”جھوٹ مت بولنا“۔۔صحابی گھر گ?۔۔اگر کسی کوتاہی کا ارادہ ہوتا سوچتا۔۔رسول مہربان ﷺ کوکیا جواب دوں۔۔سارے گناہ چھوٹ گ?۔۔ستارے کی قسم سچ روشنی ہے اور ہماری کامیابی کی کلید بھی۔۔