چترال مائن اینڈ منرل ایسوسی ایشن چترال نے کان کنی پر پابندی اٹھا نے ا ور مقامی لیز ہولڈرز کو کام کرنیکا موقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) چترال مائن اینڈ منرل ایسوسی ایشن چترال نے کان کنی پر پابندی اٹھا نے ا ور مقامی لیز ہولڈرز کو کام کرنیکا موقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئیمائن اینڈ منرل ایسوسی ایشن چترال کے صدر شہزادہ مدثر الملک، سجاد حسین شاہ، جاوید سردار، اصغر علی خان، مقصود عالم بیگ، اشفاق علی خان وغیرہ نے کہا۔ کہ چترال کے لوگوں خاص کر مائن ایسوسی ایشن چترال کیلئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی چترال آمد یہاں کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک سنہرا موقع تھا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ مائننگ کے حوالے سے ٹاون ہال چترال میں چیف جسٹس کے سامنے غلط تصویر پیش کی گئی۔نتیجتا چترال میں مائننگ پر پابندی لگ چکی ہے۔ اور مائن ہولڈر اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں۔ کہ چترال کے لیز ہولڈر جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور پہاڑوں کو بلاسٹنگ کرکے تباہ کر رہیہیں۔ جن کی وجہ سے سڑکوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے۔ کہ چترال کیصرف دو فیصد پہاڑوں پر جنگلات ہیں۔ باقی اٹھانوے فیصد سنگلاخ پہاڑ ہیں۔ جس پر کان کنی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔ جبکہ جدید سائنسی طریقے پر مائننگ ڈیپارٹمنٹ کی ہدایات اور قوانین کے مطابق بلاسٹنگ کی بجائے بھاری مشینریوں کے ذریعے انتہائی احتیاط سے کام کیا جاتا ہے۔ تاکہ ماحول کو کسی قسم نقصان نہ پہنچے۔ اب اس پابندی کے بعد روزانہ کی بنیاد پر کھڑی مشینریوں اور مزدوروں کے لاکھوں روپے کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی انتہائی افسوس کا اظہار کیاکہ وزیر اعلیٰ نے ہائی کورٹ کی طرف سے اسٹے کے باوجود جوائنٹ ونچر کے تحت چترال میں 24 منرل لیزز جاری کرنے کی باضابطہ منظوری دی ہے۔ چترال ماینز اینڈ منرلز ایسوسییشن کے صدر شہزادہ مدثر الملک نے پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے اسٹے آرڈر جاری ہونے کے باوجود چترال میں معدنیات کے 24 بلاکوں کی نیلامی پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ صوبے کا وزیر اعلی قانون اور عدلیہ کا احترام نہیں کرتا تو کسی اور سے کیسے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ صوبائی حکومت خزانہ خالی ہونے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا بہانہ بنا کر جانینٹ وینچر کے ذریعہ 97% چترال کو، جو کہ پہاڑوں پرمشتمل ہے فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پورے صوبے میں وزیر اعلی اور سیکرٹری معدنیات کو چترال کے علاوہ کوئی اور ضلع نظر نہیں آتا۔ معدنیات کے پہاڑ صوبہ کے ہر ضلع میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چترال کے مقامی باشندہ گان کی طرف سے چترال میں 650 سے زاید معدنیات کے دریافت کردہ جگہوں کو ملکی و غیر ملکی کمپنیز کو فروخت کرنا، مقامی باشندہ گان کے لیزوں کو کینسل کرنا افسوس ناک امر ہے جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عدالت عالیہ سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے باوجود 24 لیزوں کی جاینٹ وینچرکے تحت منظوری کے خلاف وزیر اعلی کے خلاف توہین عدالت کے کے جرم میں کاروائی کی جائے اور جاینٹ وینچر کے ان لیزوں کو کینسل کیا جائے۔۔