دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات ”سیاست چھوڑ دیں تو ہم ایک قوم ہیں“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات ”سیاست چھوڑ دیں تو ہم ایک قوم ہیں“
”قوم“ افراد کے مجموعے سے آگے ایک فکر کا نام ہے اس کی صرف ایک روپ ہوتی ہے ایک پہچان ہوتی ہے۔اس کی Identity ہی اس کے ل? سب کچھ ہے بیرون ملک کی ک? کمپنیوں کے انجینیرز کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ اپنے کام میں آخری حد تک اس ل? مخلص ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک اور قوم کے نما?ندے ہیں ہمارے ملک کی آبرو پہ فرق آ? گا اگر ہم سے کچھ کوتاہی ہوجا?۔ ہمارے ہاں سیاست نے ہمیں تباہ کردیا ہے یہ مفاد پرستی، سستی شہرت، منافقت اور بد عنوانی کے سوتے اسی کمبخت سیاست سے پھوٹتے ہیں۔۔ مشہور اداکارہ انجیلیا جولی کی ڈا?ری کا ایک ورق وا?رل ہوا ہے وہ کسی قدرتی آفت کے وقت ہمارے ہاں غریبوں کی مدد کرنے آ?یں۔ ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم کو اور ان کے خاندان کو جولی سے ملنے کی جلدی تھی وہ کہتی ہے کہ مجھے غریبوں سے ملنینہیں دیا گیا۔۔ہم کس مٹی سے بنے ہیں ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہر مصیبت کی گھڑی میں ہم ایک ہوتے رہے ہیں لیکن اخلاص، سیاست اور سیاست کاروں میں نہیں پائی گ?ی جو اپنے آپ کو قوم کا نما?ندہ کہتے ہیں ان میں نہیں پا?ی گ?ی۔ عوام میں پا?ی گ?ی۔فلحال بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ملک پر قدرت کی طرف سے آزما?ش آ?ی۔عذاب کہنے والے اپنے منہ کو لگام دیں رسول مہربان ص کے صدقے ہم پہ عذاب نہیں آ? گا اس وقت بھی ہماری ہر ادنا سی نیکی فلاح کا معمولی کام خلوص کا چھینٹا سیاست کا شکار ہے۔امداد، امدادی کام، اشک شو?ی،غمخواری، مصیبت کا مقابلہ سب کچھ سیاست کی بھینٹ چھڑ گیا ہے۔کھینچاتانی ہے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا ہے دینی جماعتوں اورفلاحی اداروں کابھی سیاست نے کباڑہ نکالا ہے۔۔جو کام فلاح انسانیت اوراللہ کی رضا کے ل? ہو رہا ہو اس کو بھی نمودو نما?ش کا لحاف پہنایا گیا ہے۔فاروق اعظم رض جب خلیفہ بنے تو انھوں نے دربان خاص سے کہا کہ خلیفہ رسول کا کو?ی خاص انفرادی عمل جو وہ بلا ناغہ کرتے تھے تو دربان نے کہا کہ خلیفہ رسول رض جب سب کاموں سے فارغ ہوتے تھے تو اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں اور ضروری سامان لیتے تھے اور رات کی تاریکی میں شہر سے باہر جاتے تھے اس عمل کا کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا۔۔فاروق اعظم رض نے بھی یوں سامان لیا خادم کو ساتھ لے کر روانہ ہوا شہر سے باہر نکل کر دیکھتا ہے کہ ایک جھونپڑی نما مکان ہے اس میں ایک نحیف و نزار اندھا بوڑھاآدمی رہتا ہے۔بوڑھے آدمی نے غصے میں کہا کہ آج تم نے دیر لگا دی۔۔فاروق اعظم رض نے اس کو کھانا دیا ضروری سامان د? اور جاتے جاتے اپنا تعارف کرایا کہ وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہے بوڑھے آدمی نے مسکرا کر کہا کہ تم سے پہلے جو آدمی آتا تھا وہ اپنا تعارف نہیں کراتا تھا مجھے کبھی پتہ نہ چلا کہ وہ کون تھا۔۔۔تم گویا احسان جتا رہے ہو۔۔فاروق اعظم رض رو پڑے۔۔
ہمارا گلہ ان لوگوں سے نہیں جن کا مطمع نظر صرف سیاست ہے ہمارا شکوہ ان اسلامی فلاحی اور دینی اداروں سے ہے جو خالص اللہ کی رضا کے ل? خدمت کا کام کرتے ہیں ان کو چاہی? کہ وہ نمود و نما?ش سے گریزان رہیں کہیں ان کی نیکی میں خلل نہ پڑ جا?۔ پوری دنیا ہماری ایمانداری کا نوٹس لے رہی ہے یہ آزما?شیں ہماری زندگی میں ک? بار آ?یں ہر بار حکومت یا کسی سیاست کی طرف جو وعدے وعید ہو? وہ صرف لولی پاپ تھے۔ہمارا تلخ ترین تجربہ ہے۔اس ل? کم از کم اغیار کی نظروں میں اپنی اہمیت کا خیال رکھا جا? لوگوں کی امداد کی صورت میں امانتیں ان حقداروں تک پہچا?یں۔لوگ بے گھر بے در ہیں آب و دانے سے محروم ہیں مر کھپ رہے ہیں اور ہم سیاست کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا ہماری کارتوتوں کا گواہ بنتا جا رہا یے۔ہماری امداد بھی سوالیہ نشان ہیں ہماری اپیلیں بھی سوالیہ نشان ہیں اگر قوم کی رگوں سے سیاست نچوڑ کر دفن کیا جا? تو ہم قوم ہیں۔ دکھ درد میں شریک، لقمے آپس میں بانٹنے والے، دوسروں کی راحت کے ل? اپنا آرام تج دینے والے۔اگر امداد دینے والے کو یقین نہ ہو جا? کہ اس کی امداد حقدار تک پہنچے گی کہ نہیں تو یہ ہمارے شرمندگی ہی تو ہے۔۔یہ اپنے آپ کی پہچان کا مرحلہ ہے اپنے آپ کے تعارف کا مرحلہ ہے کہ ہم صداقت، امانت، دیانت جیسی صفات سے کس حد تک متاصف ہیں۔قومیں آزما?شوں میں مبتلا بھی ہوتی ہیں نکلتی بھی ہیں قران کا واضح پیغام ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔اور یہ خدا?ی امتحانات قوموں کو مضبوط بنانے کے ل? لی?جاتے? ہیں۔ہم میں یہ اہلیت نہیں ہم نہ امتحان پاس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ اس آزما?ش سے سبق حاصل کرکے مستقبل کی فکر کی اہلیت رکھتے ہیں۔ہمیں چاہی? کہ ہم اس سستی سیاست کو چھوڑ کر خدمت پہ یقین رکھیں تب زندگی خوشیوں کا نام ہے۔۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔۔۔ ورنہ طاعت کے ل? کچھ کم نہ تھے کروبیان۔۔