داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔حکومت کی عملداری

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔حکومت کی عملداری

انگریزی میں حکومت کی عملداری کو رِٹ (Writ) کہا جا تا ہے انگریزی کا لفظ اتنا مقبول ہو گیا ہے کہ عملداری کے مقا بلے سہل اور آسان لگتا ہے عملداری کس چیز کا نا م ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سر کاری سڑ ک کو بند کرے ٹریفک کو روک دے تو حکومت کا ہلکار اُس شخص کو گرفتار کر کے جیل بھیجدے اور سڑ ک کو ٹریفک کے لئے کھول دے سڑ ک سر کار نے بنا ئی ہے عوام کے لئے بنا ئی ہے اس کو بند کرنا جرم ہے جو مجر م کا ساتھی ہو کر سامنے آئیں ان کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دے اس کا نا م ہے حکومت، سر کار اور قانون، اگر کوئی شخص روڈ بلا ک کر ے اور سر کاری مشینری حرکت میں نہ آئے کہا جاتا ہے کہ سر کار کی کوئی رِٹ نہیں ہے قانون کہیں نظر نہیں آتا سر کا ری رِ ٹ کی لا کھوں مثا لیں ہونگی سب سے اہم مثال خیبر پختونخوا ہ کی دو سابق ریا ستوں سوات اور چترال کی سابق انتظا میہ میں ہمیں ملتی ہیں ایک سپا ہی ہوتا تھا جس کی کوئی وردی نہیں تھی اس کے ہاتھ میں ایک لا ٹھی ہوتی تھی اُس لا ٹھی کے سرے پر حکمران کا حکم ہوتا تھا، سڑک کھولو، چور کو ہمارے حوالے کرو، قاتل کو باہر نکا لو، چوری کا مال میدان میں لے آؤ، سپا ہی اپنی لاٹھی زمین میں گاڑ تا حکم سنا تا، بچے، با لے یہ حکم گھروں میں پہنچا تے، لو گ ڈر سے سہم جا تے، ایک گھنٹے کے اندر حکم کی تعمیل ہوتی تھی چوری کا مقدمہ ایک دن میں فیصلہ ہوتا تھا قتل کا مقدمہ ایک ہفتے میں فیصلہ ہوتا تھا کوئی عوامی راستہ بند کر تاتو د س سال با مشقت قید کی سزا کے ساتھ اس کا گھر بھی ضبط کر لیا جا تا تھا اُس زما نے میں سفارش نہیں ہوتی تھی، مشہور مقولہ تھا کہ لو گ بے چہرہ ہوتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے وزیر اعلیٰ محمود خا ن، کور کمانڈر لفٹننٹ جنرل فیض حمید اور چیف جسٹس قیصر رشید کو اس مقولے کا علم ہے قانون کی عملداری اور حکومت کی رِٹ کا بھی پتہ ہے مگر ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں چھوٹا سا واقعہ ہے مشہور دانشور عصمت عیسیٰ ایڈو کیٹ ضلع کے گورنمنٹ پلیڈر تھے پو لیس نے بھاری مقدار میں منشیات پکڑی 6ملزموں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ٹرک کو بھی قبضے میں لے لیا، منشیات کے دھندے کا ما لک اور اس مال کا خرید ار بھی ملزموں میں شا مل تھے خبر آگئی اخبارات میں خبر لگی مگر مقدمہ عدالت کے سامنے نہیں آیا، ہم نے جی پی سے پو چھا تو انہوں نے نا م ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتا یا کہ دو ملزموں کو ایم این اے چھڑا کر لے گیا، ایک ملزم ایم پی اے کا تھا، تین ملزم ضلع نا ظم کے بندے تھے 24گھنٹے گذر نے سے پہلے سارے ملزم چھڑا لیے گئے ٹرک بھی واگذار ہوا، پھر مقدمہ عدالت میں کیسے جا تا؟ مقدمہ بننے سے پہلے اپنی مو ت آپ مر گیا اس طرح چار ٹرکوں میں اسلحہ پکڑا گیا لو گ گرفتارہوئے مگر 24گھنٹے نہیں گذرے تھے کہ سب کو چھڑا لیا گیا اسلحہ بھی ان کو واپس کر کے پو لیس نے ملزموں سے معا فی مانگی یہ وی چھلنی ہے جہاں حکومت کی رِ ٹ ختم ہو جا تی ہے قانون بے دست و پا ہو جا تا ہے، اب ضلعی پو لیس افیسر کی صرف میز رہ گئی ہے، ڈپٹی کمشنر کا صرف نا م رہ گیا ہے ایک قانون مو جو د ہے اس کو 16ایم پی او کہتے ہیں بڑا موثر قانون ہے مگر ڈپٹی کمشنر اس قانون کا استعمال کرنے سے پہلے غیر متعلقہ لو گوں سے اجا زت لینے کا پا بند ہے، صو بائی وزیر، ایم پی اے، سنیٹر اور ایم این اے کی طرف سے اجا زت نہیں ملی تو ڈپٹی کمشنر کسی کو گرفتار کر کے جیل میں نہیں ڈال سکتا یہ حکومت کی مظلو می اور قانون کی بے بسی ہے اس وجہ سے انتظا میہ کو لو لی، لنگڑی انتظا میہ ہو نے کا طعنہ دیا جا تا ہے ضلع لوئیر چترال کے مقامات دروش، مروئے اور کو غذی میں روڈ بلا ک ہوا تو ہم نے اس پر دوسرے زاویے سے غور کیا ہم نے سوچا شا ید سول سروسز اکیڈ یمی کے اندر افیسروں کی تر بیت کا معیار گر گیا ہے افیسروں کی اچھی تر بیت نہیں ہو تی، لیکن تھوڑی بہت ریسرچ کے بعد معلوم ہوا کہ افیسروں کی ترقی اور تبدیلی کا اختیار چیف سکر ٹری سے لیکر سیا ستدانوں کو دیا گیا ہے، ایک سیا ستدان اپنی مر ضی کا ڈپٹی کمشنر لگا تا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ قانون کو گو لی مارو، میں جو کہتا ہوں اُس پر عمل کرو، ڈسٹرکٹ پو لیس افیسر بھی قانون کا پا بند نہیں ایک غیر متعلقہ شخص کے احکا مات ما ننے کا پا بند ہے اس لئے چند لو گ سر کا ری روڈ کو بلا ک کریں ان کی سر پرستی کوئی سیا سی توپ کر رہا ہو تو ڈپٹی کمشنر بے بس ہو جا تا ہے قانون بے دست و پا نظر آتا ہے پھر ایسے کا غذات سامنے آتے ہیں کہ افیسر وں نے قانون توڑ نے والوں کے ساتھ معا ہدہ کیا اور راستہ کھول دیا حکومت کی عملداری کے لئے مقام عبرت ہے۔