اگر مرکزی اور صوبائی حکومت نے ریشن کے مقام پر سڑک کی بحالی کیلئے اقدامات نہیں کئے تو اپر چترال میں سنگین طور پر اشیاء خوردونوش کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ مولانا عبد الاکبر چترالی

Print Friendly, PDF & Email

چترال(نما یندہ چترال میل) ممبر قومی اسمبلی چترال مولانا عبد الاکبر چترالی نے چترال پریس کلب میں جماعت اسلامی کے عہدہ داروں اور عمائدین مولانا جمشید احمد، وجیہ الدین، قاضی سلامت اللہ، حکیم مجیب اللہ کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔کہ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔ کہ ریشن اور مستوج کے مقامات میں سڑک اور پل ٹوٹ جانے ک وجہ سیسڑکیں بند ہیں۔ اسی طرح مستوج چنار میں سیلاب سے آبپاشی نہریں ختم ہو چکی ہیں اور لاسپور مں بھی سیلاب نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے ساتھ پیسکو اور پیڈو کے بجلی تنازعے نے عوام کو اور بھی مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ گذشتہ سال ریشن میں سڑک کے کٹاو روکنیکیلئے وزیر اعلی نے جو فنڈ دییتھے۔ اس کا استعمال باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہ ہونے کی بنا پر مزید نقصان ہوا۔ اور فنڈ ضائع ہو گئے۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت اور مرکزی ادارہ این ایچ اے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ عوام چترال شدید تکلیف مبتلا ہیں۔مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہا۔ کہ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، اور ڈی ڈی ایم اے کی کارکردگی صفر ہے۔ یہ صرف ناموں تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فوری طورپر اگر مرکزی اور صوبائی حکومت نے سڑک کی بحالی کیلئے اقدامات نہیں کئے تو اپر چترال میں سنگین طور پر اشیاء کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ جبکہ سڑک منقطع ہوئے چار دن گزر گئے ہیں۔ اور حکومت نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا۔ یہ بات بھی قابل مذمت ہے۔ کہ گذشتہ سال ریشن سڑک کی بحالی کیلئے مقامی لوگوں کے مکانات و باغات برباد کئے گئے۔ لیکن ابھی تک ان کو معاوضہ نہیں دیا گیا۔ رکن قومی اسمبلی نے نیشنل ھائی وے اتھارٹی سیسڑک کی بحالی کامطالبہ کرتے ہویے خبردار کیا۔ کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امن و امان کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ اور وفاقی اور صوبائی حکومت میں اتنی طاقت نہیں ہوگی۔ کہ اس کامقابلہ کرے۔مولانا چترالی نے کہا۔ کہ اقتدار کی رسہ کشی میں لوگوں کے مسائل پس پشت چلے گئے ہیں اور حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا۔ کہ نواز حکومت اقتدار میں آئی۔ لیکن عوام کو ریلیف کی بجائے مزید مہنگائی کی چکی میں پیسا گیا۔ انہوں نے کہا۔کہ ریش روڈ کٹاو کا واقعہ اگر سوات میں ہوتا۔ تو وزیر اعلی اس کی بحالی کیلئے خزانے کے منہ کھول دیتے مگر چترال میں ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک سوال کے جواب میں ایم این اے نے کہا۔کہ وہ اسمبلی میں مسائل پر سب سے زیادہ بولنے والے رکن ہیں۔ اور پلڈاٹ کیمطابق ٹاپ ٹین میں سے پانچویں نمبر پر ہیں اور انہوں نے چترال کیلئے بے پناہ کام کئے ہیں۔ جن میں پی ایس ڈی پی میں چھ فیڈرز کیلئے ساڑھے چار ارب کے فنڈ کی منظوری،لاواری ٹنل کی تکمیل کیلئے ایک ارب اور کالاش ویلیز روڈ کیلئے ایک ارب روپے کی منظوری شام ہیں۔ جبکہ ان کی جدوجہد کے نتیجے مہں لواری ٹنل تعمیر ہوا۔