چترال بازارکو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے لوگ نقل و حمل سے قاصر ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) مملکت خدا داد واحد ملک ہے۔ جو بغیر پلاننگ کے 76 سال گزار چکا ہے۔ اور اب بھی بغیر منصوبہ بندی کے کام جاری ہیں۔ ثبوت کے طور پر یہ تازہ تصاویر ملاحظہ فرمائیں۔ کہ چترال بازارکو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے لوگ نقل و حمل سے قاصر ہیں۔ پورا بازار، سیکرٹریٹ روڈ بائی پاس روڈ ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اورسارا ائریا مٹی میں لت پت ہے۔ دکانداروں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا۔ کہ نجی موبائل کمپنی کی طرف سے کیبل بچھایا جا رہا ہے۔ جبکہ کچھ ہی عرصہ پہلے ایک اور کمپنی نے یہ سڑک کھود کر قبرستان بنایا تھا۔ جو ٹھیک ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ کہ اب نئی کھدائی شروع ہو چکی ہے۔ چترال میں درجنوں موبائل کمپنیاں سروس دینے کیلئے اپنی لائینیں بچھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پی ٹی سی ایل کے آندھے انجینیرز کی عقل اتنی بھی کام نہیں کرتی۔ کہ بازار ایریا میں سڑک کے سائڈ پر ایک مرتبہ دو فٹ چوڑی انڈر گراونڈ ڈرین بنا کر اوپر سلیٹ (سیمنٹ کی تختیاں)بچھا کر چھوڑی جائیں۔ تاکہ بار بار سڑک کھود کر ملبے کا ڈھیر بنانے کی بجائے سلیٹ ہٹا کر کیبل نہایت آسان طریقے سے ڈرین میں بچھائی جاسکے۔ تو نہ سڑک کا حلیہ بار بار خراب ہو گا۔ اور نہ لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات پش آئیں گی۔ اور پی ٹی سی ایل متعلقہ موبائل کمپنی سے اس سروس کے عوض چارج کرے۔ یہ ہم خرمہ ہم ثواب کے مصداق ہو گا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اور پورے چترال شہر کو آئے روز کھنڈرات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ شہری ایریا سے باہر کھدائی شدہ سڑک کی دوبارہ بھرائی بھی صحیح طور پر نہیں کی جاتی۔ یو ں چلتی گاڑیوں کا ان خندقوں میں گرکر حادثات کا شکار ہو نا معمول بن گیا ہے۔ جس پر نہ انتظامیہ کی نظر ہے نا متعلقہ ادارے کی۔ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی کے مصداق اس ملک کے کس کس کام کیلئے رویا جائے۔ جس کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔