داد بیداد۔۔صنم کدہ ہے جہاں۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

قرنطینہ کی کھڑ کی سے با ہر دیکھنے کی جو آزادی ملی ہوئی ہے اس کو ہم غنیمت سمجھتے ہیں اور حقیقت میں یہ کسی غنیمت سے کم نہیں اگر کورونا کی وباء میں کھڑ کی اور روشندان بھی بند ہوتے تو میرا کیا حال ہوتا اور آپ کس حال میں ہوتے!آج سے 62سال پہلے جو وباء آئی تھی اس میں قرنطینہ کی کوئی کھڑ کی نہیں تھی ملک کا صدر سکندر مر زا تھا 23مارچ 1958کو انہوں نے گزٹ نو ٹیفکیشن جاری کیا اس میں لکھا تھا کہ قواعد کی رو سے صدر سکندر مر زا نے اپنے لئے نشان پا کستان کا سول ایوارڈ منظور کیا ہے اس پر تالیاں بجائی گئیں اس کے 4سال بعد صدر محمد ایوب خان نے نوٹی فیکیشن جاری کیا کہ صدر مملکت نے اپنے لئے فیلڈ مار شل کا رینک منظور کیا ہے آج کے بعد ہمارے صدر محترم کو جنرل ایوب خان کی جگہ فیلڈ مار شل ایوب خان لکھا اور بولا جائے گا اُس زمانے میں لے دے کے اخبارات تھے، اخباری کا لم تھے مشا عرے تھے اور حبیب جا لب جیسے جی دار شعراء تھے پھر بھی قرنطینہ کی کسی کھڑ کی سے کوئی کا لم یا شعر باہر نہیں آیا ”میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا“ کی تو انا آواز آئی بھی تو و قو عہ کے دو سال بعد آئی مو جو د دہ دور میں قرنطینہ کی کھڑکی کھلی ہے مگر اس کھڑ کی سے کوئی توا نا آواز باہر نہیں آتی ؎
یہاں خوشبو وں کی رفا قتیں نہ تجھے ملیں نہ مجھے ملیں
وہ چمن کہ جس پر غرور تھا نہ تیرا ہوا نہ میرا ہوا
کھڑ کی کے اندر قرنطینہ ہے با ہر حبس ہے اور حبس کے مو سم میں سانس لینا دشوار ہے مجھے جو لائی 1977کا وہ دن یا د آتا ہے جب جنرل ضیاء الحق نے اکتو بر میں انتخا بات کرانے کا اعلان کر تے ہوئے اُمید واروں کے لئے کڑی شرائط کا اعلا ن کیا مثلاً وہ کسی ٹھیکہ یا کاروبار میں ملوث نہ ہوں کسی سیا سی جما عت سے اس کا تعلق نہ ہو، بیو رو کریسی یا عدلیہ کے کسی عہدے پر فائز نہ رہا ہو اگر فو جی افیسر ہو تو کوئی مضا ئقہ نہیں اُمید وار کے لئے گیارہ دیگر شرائط بھی رکھی گئی تھیں یہ ایسی شرائط تھیں جن پر فرشتے ہی پورا اتر سکتے تھے ابراہیم جلیس مر حوم نے حبس کے مو سم کا خیال رکتھے ہوئے اُس وقت کے اراکین اسمبلی کی کل تعداد کا حساب لگا نے کے بعد ”جلیس سلا سل“ میں کا لم لکھا کہ ”ضرورت ہے“ کا لم میں انہوں نے ایک خیا لی وفد علا مہ اقبال اور قائد اعظم سے ملا قات کے لئے عالم ارواح کی طرف روانہ کیا وفد کے ہاتھ میں ایک عر ضداشت لکھ کر دیدی عرضداشت یہ تھی کہ عالم ارواح میں ہمارے قائدین اور با نیان پا کستان کو حق تعا لےٰ کے حضور میں استد عا کے لئے بھیجا جائے استد عا یہ تھی کہ مملکت خدا دا د پا کستان میں تین ما ہ بعد انتخا بات ہونے والے ہیں انتخا بات میں ایک قو می اسمبلی ایوان ِ با لا اور چار صو بائی اسمبلیوں کے لئے 840اُمید واروں کی ضرورت ہے اُمید واروں کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں ان شرائط پر گوشت پوست کے انسان پورے نہیں اتر تے ہر بنی آدم میں کوئی نہ کوئی کمی اور خا می پا ئی جا تی ہے کوئی تا جر ہے کوئی ٹھیکہ دار ہے کوئی سول دفتر کا ملا زم رہ چکا ہے اور کوئی عد لیہ میں کسی پوسٹ پر فائز رہ چکا ہے حق تعا لیٰ سے در خواست کی جائے کہ مملکت خدا داد پا کستا ن کی اسمبلیوں کے لئے 840فرشتے بھیجدے حق تعا لیٰ بنی اسرائیل کو ازمانے کے لئے ہاروت اور ماروت کے نام سے دو فرشتے بھیجے تھے ان کا ذکر ہم قرآن حکیم میں پڑ ھتے ہیں اور ثواب دارین حا صل کرتے ہیں ابراہیم جلیس کا یہ کا لم اُس دور کے قرنطینہ کی سختی پر دلا لت کرتا تھا بھارتی شاعر جا وید اختر کی نظم ”نیا حکم نا مہ“ بھارتی وزیر اعظم نریندر مو دی کی فاشزم کا پر دہ چاک کر تا ہے اندر قرنطینہ اور با ہر حبس ہوتو لے دے شاعر کی زبان ہی رہ جاتی ہے لکھنے والے کا قلم ہی رہ جا تا ہے یا کسی صادق سالک کا نا ول آجا تا ہے ”پریشر کوکر“ یا کسی دل جلے کی کتاب آجا تی ہے ”ہاں! میں باغی ہوں“ 1964کے بعد وطن عزیز میں الیکٹر انک میڈیا کا نیا ہتھیا ر ٹیلی وژن آگیا 40سال بعد 2004میں پرائیویٹ چینل کھل گئے ساتھ ہی فیس بک اور ٹویٹر نے سو شل میڈیا کے نام سے ایک نئی دنیا کا نظارہ کرا یا چنا نچہ قرنطینہ کی کھڑ کی سے با ہر دیکھو تو با ہر پورا جہاں نظر آتا ہے ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے قلمکار کے مقابلے میں اینکر (Ancher) نام کی نئی بریگیڈ نظر آتی ہے جس کے سامنے قلمکار اور کا لم نگار پا نی بھر تے دکھائی دیتے ہیں مظہر لاسلام کا ایک افسا نہ آیا تھا ”گڑ یا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھو“ یہ علا متی کہا نی تھی آج کل کی علا متی کہا نی کا عنوان ہوگا قرنطینہ کی کھڑ کی سے دنیا کو دیکھو ؎
یہ دور اپنے براہیم کی تلا ش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الااللہ
ساڑھے چھ ارب کی آبادی کا جو نیا صنم کدہ ہے اس میں اصنام کی پو جا پاٹ زور و شورسے جاری ہے نہ کوئی ابرا ہیم ہے نہ کسی کے کندھے پر کلہا ڑی ہے سعودی عرب، دو بئی اور ابو ظہبی کے بعد اسلا م اباد میں بھی مندر کی تعمیر کا چر چا عام ہے مندر کے حق میں بھی دلا ئل دیئے جا رہے ہیں اس کے خلا ف بھی دلا ئل کی کمی نہیں قیا مت کا شور بپا ہے کان پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی ہم نے قرنطینہ کی کھڑ کی سے با ہر دیکھا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا زبان کھولنا چا ہا تو زبان نہ کھل سکی قلم اٹھا نے کا ارادہ کیا قلم نہ اُٹھ سکا با ہر اتنا حبس تھا کہ نہ ہی پو چھو تو بہتر ہے شاعر نے حبس کے ایسے ہی مو سم میں کہا تھا ؎
وہ جوخواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
کہ زبان ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بکا ہوا