اختتام یا منزل۔۔شمس الرحمن تاجک

Print Friendly, PDF & Email

یہ ضروری نہیں کہ ہر اختتام منزل ہی ہو بہت سارے اختتام، خاتمے کا باعث بن جاتے ہیں۔منزل کے بعدسفر تمام ہوتا ہے۔اختتام کے بعدنئے جہاں کا نیا سفر۔ اس جہاں سے تو آپ گزر ہی جاتے ہیں۔ نئے جہاں میں نئے لوگ، نئی رشتہ داریاں، نئے ہمسائے، نئے الزام، نئے اعمال نامے، نئے حساب کتاب۔ مگر اتنے سارے رائج الوقت، ذہنوں میں ٹھونسے گئے مفروضات، دین و ادیان، فرمودات و اقوال پر بندہ کیوں کر یقین کرے۔ وجہ نوشتہ دیوار ہے۔ جس نے بھی فرمایا، دعوی کیا یا پھر کسی کے ایجنٹ ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ دنیا ان سب کے ذرین خیالات کے بالکل ہی الٹ چل رہا ہے۔ اگر حساب کتاب کے رجسٹر کی موجودگی میں آپ مگرمچھ کو سزا نہیں دے سکتے تو چیونٹیوں کے لئے جال بننے کا فائدہ؟ وہ تو ویسے بھی ذاتی شعور کے حساب سے ایک جال کے اندر ہی موجود ہیں۔ ورنہ کہاں ہمارا لیڈر زندہ باد، تمہارا لیڈر ضمیر فروش۔ ہم دودھ کے دھلے، تم پٹرول کے۔ وقت آنے پر تمام ضمیر فروش، ڈیزل فروش، زیادہ پانی کم بارش والے بابااور تبدیلی کے ٹھیکیدار سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بہانا تراشنا کونسامشکل ہے۔ چاہئے وہ بکواس انسانی ہمدردی کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔
اٹھائے گئے ہر پتھر کے نیچے سے اژدھا نکل رہا ہے ہر اژدھاخون میں لت پت مگر دعوی پارسائی کا کررہا ہے، قسمیں خالق کی، مثالیں ریاست مدینہ کی دی جارہی ہیں۔ ایک اژدھا اگر ریاست مدینہ کی بات کررہا ہے تو دوسرا اسے اپنا ٹریڈ مارک قرار دے کر ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو یہودیوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے وہ پیسہ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا جس کا موصوف کو خود پتہ نہیں کہ ہندوبنیا نے رام مندر کی تعمیر کے لئے جمع کئے گئے فنڈز سے فراہم کیا ہے یا یہودیوں نے فسلطین میں نئی آبادیاں تعمیر کرنے کے لئے جمع شدہ فنڈمیں اپنے ایجنٹ کی حکومت کے خاتمے کے لئے دیا ہے۔ بے حسی کا عالم دیکھئے کہ مملکت کے درالحکومت میں سرے عام ملک کے وجود کو چیلنج کرنے والے تیسرے دن ٹرک بھر کے پیسے گھر لے کر جا رہے ہوتے ہیں اور مرغی چور کبھی تھانوں کے لاک اپ اور کبھی جیل میں اپنے کیس کے فیصلے آنے سے 10 سال پہلے مرکھپ جاتے ہیں۔اسی پر بس نہیں کیا جاتا۔ کھربوں کے ثابت شدہ کرپٹ افراد عزت و احترام کے ساتھ عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ”میں“ والے تبدیلی کے عالم بردار کا انسانی ہمدردی کا جذبہ قصور میں گولیوں سے چھلنی بے قصور لوگوں کی لاشیں دیکھ کر نہیں جاگتاملک کی بنیادوں سے کھیلنے والوں کو نزلہ زکام ہونے سے تبدیلی والے سرکار کی انسانی ہمدردی ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔
حیران ہونے کی بات نہیں ہم ایک ایسے جہاں کے باسی ہیں جہاں روٹی کی الگ دکان ہے، بھوک کی الگ۔ جس کو روٹی کی ضرورت نہیں اس کو روٹی اور بھوکوں کو خواب بیچے جاتے ہیں۔ عجیب گورگھ دھندہ ہے۔بھلا کبھی خوابوں سے بھی کسی کا پیٹ بھرا ہے۔گزشتہ 70 سالوں سے ملک کی آبادی کے 98 فیصد کا گزارا خوابوں پر ہے، مراعات یافتہ 2 فیصد خواب فروشی کے دھندے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ عمران خان کا انتخاب اس خواب فروشی کے دھندے سے نجات کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔بجائے دھندہ بند کرانے کے وہ کھلی آنکھوں ایسے ایسے خواب دیکھانے لگا ہے جس پر خواب فروشی کے دھندے سے وابستہ افراد بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ بندہ اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے کہ مجرم کو جیل سے رہائی دلوانے، عدالتوں سے بری کروانے اور ای سی ایل سے نام نکلوانے کے بعد کہہ رہا ہے کہ میں خوف خدا کا شکار ہوں اور کسی بھی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑوں گا۔شاید وہ جملہ پورا ادا نہیں کررہے ہیں وہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ میں ہر کرپٹ شخص کو عزت و احترام کے ساتھ ملک سے فرار کراؤں گا۔ کسی کو بھی نیب کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑوں گا۔ ہم ہی سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔ اس مقام پر یہ سوال تو بنتا ہے کہ اتنے پرخلوص، ایماندار اور ”پدرمن سلطان بود“ والے لیڈرشپ کی موجودگی میں ہم بحیثیت قوم اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں یا منزل کی جانب۔