یارخون میں پیش آنیوالا نا خوشگوار سیاسی واقعہ /تحریر: ابو ارحان

Print Friendly, PDF & Email

سیاست میں رواداری، اعتدال، صبر اور تحمل اور برداشت نہایت ضروری لوازمات سمجھے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں کے دوران سیاست سے ان عوامل کا خاتمہ دیکھنے میں آرہا ہے اور عدم برداشت، گالم گلوچ، دھونس دھمکی اور مار کٹائی کا عنصر غلبہ پا رہا ہے۔ ملکی سطح پر ہونے والے منفی رجحان کے اثرات چترال کے سب سے پر امن ضلع پر بھی پڑ نا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گذشتہ دنوں وادی یارخون میں منعقد ہونے والے پیپلز پارٹی کے ایک کارنر میٹنگ میں وقوع پذیر ہوا اور بعد ازاں سوشل میڈیا اس واقعے کے ایک رخ کو لیکر کافی ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی، پھر کیا تھا کہ اس واقعے کو نیشنل میڈیا میں بھی کور کیا گیا۔ سوشل میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے بالکل خاموش ہے کہ یہ واقعہ کیونکر پیش آیا۔ دونوں طرف کا میڈیا عام لوگوں تک مکمل حقائق پہنچانے کے بجائے صرف اور صرف ایک رخ پر بات کو طول دینے میں مصروف رہے۔
اس بات سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں اور پبلک آفس ہولڈرز سے انکی کارکردگی کی بابت سوال کریں اور اسی طرح یہ سیاسی راہنماؤں اور پبلک آفس ہولڈرز کی بھی ذمہ داری اور ان پر فرض ہے کہ عوام کے سوالات کا جواب دیں اور عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ لیڈر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ برداشت کرنے والا، باتوں کو سننے کی صلاحیت والا اور نرم خو ہو۔
یارخون واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا میں یہ بتایا گیا کہ جلسے میں شریک ایک شخص کی طرف سے سوال کرنے پر پی پی پی کے امیدوار حاجی غلام محمد سیخ پا ہوگئے اور اس شخص کو مارا پیٹا گیا۔ اب اس کے بعد جو ویڈیو سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کی گئی ہے وہ اس دعوے کی تقریباً نفی کر رہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے صدر و سابق صوبائی وزیر سلیم خان شرکاء سے خطاب کر رہے ہیں، اس دوران وہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو اس بیچ شرکاء میں سے ایک شخص(جسے ویڈیو میں نہیں دیکھایا گیا ہے) سلیم خان کو ٹوکتے ہیں اس پر بد مزگی پیدا ہوتی ہے اور پھر حاجی غلام محمد اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر اس لڑکے کو کو ستے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی جب غلام محمد تقریر کر رہا تھا تو یہ بندہ دو تین مرتبہ اسے بھی ٹوکا۔
مذکورہ بندہ جسکا نام ”زار بہار“ بتایا جاتا ہے، تحریک انصاف کا سرگرم کارکن ہے۔ ایک مخالف پارٹی کے انتخابی جلسے میں اسکی شرکت ہی اس چیز کو مشکوک بناتی ہے کہ یقینی طور پر وہ جلسے میں رخنہ ڈالنے کی نیت سے گیا ہوگا وگرنہ اس کا پیپلز پارٹی کے جلسے میں شرکت اور باربار مقررین کو ٹوکنا چی معنی دارد؟ یہ تو کہا جارہا ہے کہ اس بندے کے ساتھ زیادتی کی گئی مگر اس بابت کوئی بات کرنے کوتیار نہیں کہ دیدہ دانستہ ایک پر امن مجمع کو انتشار کا شکار کرنا کونسے سیاسی اقدار میں ہے؟ زار بہار نامی پی ٹی آئی کا رکن خود اپنی پارٹی پر تنقید کو برداشت نہیں کر سکتا تو اسے یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ دوسروں سے سوال کرے۔
بادی النظر میں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مذکورہ کارکن کو سیاسی شہرت چاہئے تھی اور اسی لئے اس نے یہ سارا کھیل کھیلا۔ شکر ہے کہ اس مجمع میں کوئی دنگا فساد نہ ہوا خدا نخواستہ ایسے نادان شخص کی اس غیر ذمہ دارانہ فعل کی وجہ سے بات لڑائی جھگڑے تک پہنچتی تو ایک فساد برپا ہو جاتا۔
ہم ان سطور میں دوبارہ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حاجی غلام محمد کی طرف سے استعمال کئے گئے الفاظ انتہائی نا پسندیدہ اور غلط ہیں تاہم اس بنیاد پر ایک پر امن مجمع کو انتشار کی طرف لیجانے کے اصل ذمہ دار ”زار بہار“ کو معصوم ثابت کرنے کی کوششوں کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔
خدا نخواستہ اگر چترال جیسے پر امن علاقے میں ایک دوسرے کے جلسوں، اجتماعات کو بذور زبردستی خراب کرنے کی روش پروان چڑھی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چترال میں کوئی بھی پارٹی، کوئی بھی امیدوار نہ جلسہ منعقد کر سکے گا اور نہ ہی کارنر میٹنگز۔ لہذا تمام پارٹیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو قابو میں رکھیں اور انہیں سمجھائیں کہ آج اگر ہماری باری ہے تو کل کسی دوسرے کی ہوگی اورہر عمل کا رد عمل بھی ہو تا ہے۔ سیاسی لیڈرز بھی اپنی تقریروں میں اس بات کا خیال رکھا کریں کہ انکی گفتگو ایشوز پر نہ ہو نہ کہ ذاتیات پر۔ سوالات کا سامنا کرنے، تنقید برداشت کرنے اور عوام کو مطمئن کرنے کا ہنر رکھیں۔ اسی میں انکی شان بڑھے گی۔