دھڑکنوں کی زبان۔۔کریڈٹ کا پس منظر۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

بوڑھی اماں بہت سحر خیز ہیں۔۔گھپ اندھیرے میں اٹھتے ہوئے وہ اکثر ٹاکم ٹوئیاں کھا کھا کر گرتی رہی ہیں۔۔ ادھر ادھر ٹکراتی رہی ہیں۔۔زخمی ہوتی رہی ہیں۔۔ویسے گھر میں بجلی کی تاریں بچھی ہوئی ہیں۔بلب بھی لگے ہوئے ہیں۔۔ایک ادھ ٹمٹماتی روشنی بھی ہوتی ہے پھر بجھ جاتی ہے۔۔ی روشنی خواب لگتی ہے۔۔اکثر گھر میں بحثیں ہوتی ہیں۔۔بجلی نہ آنے کی بحثیں۔اماں کی سماعت کمزور ہے جب بحثیں گالم گلوچ تک اونچی ہوتی ہیں تو ایک ادھ اس کو سنائی دیتی ہے۔۔اس کو برا لگتا ہے۔۔بحث کرنے والوں کو چپ کرانے کی ہمت نہیں ہوتی۔۔اس کو غیبت سے چڑ ہے۔۔اب کچھ دن پہلے سے گھر روشن ہوگیا ہے۔۔روشنی بجھتی نہیں۔۔ساتھ سب کے چہروں پہ روشنی ہے۔۔سب خوش ہیں۔۔اب بھی بحثیں ہوتی ہیں لیکن آوازیں اونچی نہیں ہوتیں۔۔اتنی اونچی کہ بوڑھی امی سن سکے۔۔وہ سہمے سہمے بار بار جلتے بلپوں کی طرف دیکھتی ہے۔۔کہ ابھی روشنی بجھی۔۔ابھی بجھی۔۔ہمت کرکے ایک نواسی کو ”ڈسٹرپ“ کرتی ہے۔۔”یہ بجلی پھر جائے گی تو نہیں“وہ موبائل سیٹ کی سکرین سے بغیر نگائیں ہٹائے لاپرواہی سے کہتی ہے۔۔”نہ“۔۔بوڑھی اماں کا دل مچلتا ہے کہ ”نہ جانے“ کی وجہ پوچھے۔۔مگر ہمت نہیں ہوتی۔۔سارا گھر روشن ہے۔۔ادھر ادھر جا بجا بلپ جل رہے ہیں۔بوڑھی اماں کا دل مچلتا ہے کہ فضول بلپ جا جا کے بجھائے۔۔مگر ہمت نہیں ہوتی۔۔بوڑھی اماں کو اس فلسفے کا بالکل پتہ نہں کہ زندہ قومیں اپنے اثاثوں کی حفاظت کرتی ہیں خواہ وہ جلتا ہوا ”زیرو بلپ“ہی کیوں نہ ہو۔۔مان جی نے چترال کی بہت پسماندگی دیکھی ہے۔۔اس لئے وہ ہر لمحے شکر کرتی ہے۔۔اس کو کچھ پتہ نہیں کہ چترال ایک ضلع ہے یہاں سے اس قوم کی نمائیدگی کے لئے لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔۔خود کیا کرتے ہیں قوم کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔۔اس کو پتہ نہیں کہ قوم کا خادم اس کا غلام ہوتا ہے۔۔وہ خدمت کے لئے آگے ہوتا ہے۔۔وہ خدمت جتا تا نہیں اس کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے اس کی تعریفیں ہوتی ہیں۔۔اس کو پتہ نہیں کہ ملک کی ترقی کی کوشش کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔۔اس کو بالکل پتہ نہیں کہ حالیہ مردم شماری میں طریقہ اندراج غیر منطقی ہو نے کی وجہ سے چترال کی آبادی بڑھنے کی بجائے گھٹ گئی ہے۔۔لیڈر اس کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں میں جت گئے مگر ان کو الیکشن کمیشن کی پالیسی کا پتہ تک نہ تھا۔۔وہ اتنے اپڈیٹ ہیں۔۔ان کو کریڈٹ لینا تھا۔۔اماں کو بالکل پتہ نہیں کہ ستر کی دھائی میں جو بجلی گھر چترال میں بنا تھا۔۔کسی لیڈر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس کی توسیع کی جائے۔۔چترال بجلی گھروں کی سر زمین ہے۔کسی لیڈر نے اس کے لئے کوشش نہیں کی سوچا نہیں کہ یہاں پر بجلی گھروں کی جال بچھائی جائے اور سارے ملک کو روشن کیا جائے۔۔گولین گول پراجکٹ کی عمر پینتیس سال ہے اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔۔اس دوران چترال میں نمایندے بھی تھے۔۔رٹ بھی تھا۔۔احسان بھی جتائے جا رہے تھے کہ ”ہم نے کیا“۔۔اماں کو بالکل پتہ نہیں بس اتنا جانتی ہے کہ روشنی میں زندہ قوموں کی مائیں ٹاکم ٹوئیاں نہیں کھایا کرتی ہیں۔۔ٹھوکر کھا کر گرا نہیں کرتی ہیں۔۔اس لئے ان کے دلوں سے خود بخود اپنے نمایندوں کے لیئے دعائں نکلتی ہیں۔۔اس کو پتہ نہیں کہ گولین گول کا تصور سب سے پہلے کس نے دیا۔۔لواری کی ٹنل کا خواب کس نے دیکھا۔۔شروع کس نے کیا۔۔پھر اٹھ ارب روپے کس نے خرچ کیا۔۔پھر اس کا بجٹ اٹھا کر کون لے گیا۔۔پھر ۳۲ ارب روپے اس میں کس نے ڈالے۔۔کس نمائندے کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ فائل بغل میں دبائے دفتر دفتر پھرتا رہا۔۔ریشن بجلی گھر کس کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تور کھو روڈ میں کام تعطل کا شکار کیوں ہے۔۷۳ ہزار ملازمین کی بھرتی کو کس کے کھاتے میں ڈالنا چاہئے۔۔ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں محسوس تبدیلی کیسے آئی۔۔میرٹ کا خواب اور اس کی دھجیاں۔۔۔ارے توبہ۔۔ امی جان کو کچھ پتہ نہیں۔۔اس کو خوف ہے کہ روشنی پھر سے بجھ جائے گی۔۔اور اس کی قسمت پھر سے ٹھوکریں کھائے گی۔۔وہ لڑکھڑائے گی۔۔وہ جب سجدے میں ہوتی ہے تو رورو کر کہتی ہے یا اللہ یہ روشنی جس کے حصے میں جاتی ہے۔۔اس کی دونوں دنیائیں روشن کر۔۔اور یاد رہے کہ یہ ایک ماں کی دعا ہے۔۔۔اور یہی کریڈٹ ہے۔۔۔۔ اور ہر کریڈٹ کا پس منظر اسی دعا سے وابستہ ہے۔۔۔۔