صدا بصحرا۔۔یقین اور بے یقینی کے بادل۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

ہر دو سال یا تین سال بعدوطن عزیز کے آسمان پر یقین کی جگہ بے یقینی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں وطن عزیز ان ملکوں میں سے ہے جہاں آبادی کا 65فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 12کے درمیاں بتائی جاتی ہیں بے یقینی اور افراتفری کا سب سے زیادہ شکار یہی طبقہ ہوتا ہے ملک کا مستقبل بھی یہی طبقہ ہے قوم کی امیدوں کا محور بھی یہی طبقہ ہے پولیٹکل سائنس، جرنلزم اور انگریزی ادب میں ماسٹر یا ایم فل کرنے والے طالب علم بچے اور بچیاں جب اخبار کھولتی ہیں یا ٹیلی وژن چینل پر ٹاک شوز دیکھتی ہیں تو ان کو اپنے ملک سے اپنی قوم سے، اپنے مستقبل سے مایوسی ہوتی ہے کیوں؟ اس کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی آسان اسلئے کہ سب کو پتہ ہے ملک کے 12ٹی وی چینل، 26ریڈیو چینل، سوشل میڈیا کیساتھ ملکر مایوسی پھیلانے کا گھناؤنا کاروبار کرتے ہیں پروگراموں کے اینکر پرسن گلا پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر اپنا زور بیان صرف کرتے ہیں ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان دو دن کا مہمان ہے یہ وہی تاثر ہے تو مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے اگست 1947ء میں دیا تھا 16اگست 1947ء کو کانگریس کے لیڈروں نے یہی کہا تھا کہ پاکستان چند دنوں کا مہمان ہے یہ ملک زیا دہ دیر زندہ نہیں رہے گا چنددنوں میں اکھنڈ بھارت کے ساتھ آملے گا سوشل میڈیا پر بھارت کے مسلمان شعراء کا ایسا کلام پھیلایا جارہا ہے جو گاندھی اور نہرو کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے ہماری نئی نسل کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اکھنڈ بھارت کا خواب ہی ہماراخواب ہے اس پر کوئی قدغن نہیں کوئی پابند ی نہیں یہ پروپیگنڈا کسی قانون کی گرفت میں نہیں آتا کیونکہ قانون کا کوئی محافظ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو نئی نسل تیا ر ہوکر آرہی ہے اس نسل کے سامنے کوئی منزل نہیں ان کے اساتذہ کے سامنے کوئی منزل نہیں مایوس استاد آگے جاکر مایوس نسل کی آبیاری کرتا ہوا نظر آرہا ہے ہر ایک نا انصافی اور ظلم کی دُہائی دیتا پھر رہا ہے اس طرح مایوسی اور بے یقینی پھیلتی ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں منبر پر علماء کا وعظ بے یقینی اور مایوسی میں مزید اضافہ کرتا ہے جلسوں، جلوسوں اور کارنر میٹنگوں یا پریس کانفرنسوں میں سیا سی لیڈروں کے بیانات بے یقینی اور مایوسی پھیلاتے ہیں کوئی ایسی تقریر سننے کو نہیں ملتی جو امید اور روشن مستقبل کی نوید سنائے ایسی تقریر کوئی نہیں کرتا ایک مثال سے اس بات کی وضاحت ہوسکتی ہے امریکہ میں صدارتی انتخابات 2016ء،میں اختتام پذیر ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیلری کلنٹن شکست کھا گئے ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا ڈیموکریٹک پارٹی یا ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکی فوج یا امریکی عدلیہ کے خلاف بیان نہیں دیاایک لفظ بھی نہیں کہا اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتا امریکہ سب کا ہے امریکی صدر سب کا نمائندہ ہے امریکی فوج سب کی عزت اورشان ہے امریکی عدلیہ کو سب اپنا مان سمجھتے ہیں اور برابر عزت دیتے ہیں ہمارے لیڈروں کا رویہ ان کے رویے کے مقابلے میں یکسر مختلف اور بالکل اس کے الٹ یا برعکس ہے انتخابات کو کسی مسئلے کا حل بنانے کی جگہ نیا مسئلہ بنایا جاتا ہے انتخابات سے دو سال پہلے شور شرابا شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے تین سال گزرنے تک شورشرابا ختم نہیں ہوتا اپنے ملک سے بے زاری، اپنی قوم سے بے زاری، اپنے ملکی اداروں سے بیزاری، اپنے ملک کے سسٹم سے بے زاری ختم نہیں ہوتی یہ بیزاری جاری رہتی ہے اور بے یقینی کے یہ بادل مایوسی کی بارش برسا برسا کر پوری قوم کو اپنی مستقبل سے مایوس کردیتے ہیں چین، روس، ایران اور سعودی عرب نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی ہے ٹیلی وژن، ریڈیو، اخبارات اورمحراب و منبر پر حکومت کا کنٹرول ہے اس لئے قوم کو ایک سمت مل جاتی ہے قوم کے سفر کا ایک رخ متعین ہوتا ہے پاکستان کو اس قانون کی ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے کیونکہ قوم اور ملک کا وقار سب سے مقدم ہے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا
شاعر کی نوا ہو یا معنّی کا نَفَس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا