صد بصحرا۔۔شریف اور مشرف کا موازنہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

گزرے ہوئے سہ ماہی کا اقتصادی جائزہ اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ جائزے کے مطابق اِس سہ ماہی میں پاکستان پرمزید قرضوں کا بوجھ لادا گیا اور بیرونی قرضوں کا حجم 85ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ یہ جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی کا جائزہ ہے۔ دسمبر کے آخر تک موجودہ سہ ماہی میں اعدادو شمار مزیداُوپر جائیں گے۔ روان ماہ کے دوران انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ IMFکی ایک جائزہ ٹیم پاکستان آئی۔ اِس ٹیم نے پلاننگ کمیشن، اقتصادی ڈویژن، وزارتِ خزانہ اور سٹیٹ بینک کے حکام سے”مفید“ ملاقاتوں کے بعد ایک حکم املا کروایا(یہاں ڈکٹیشن لکھا جائے تو حکام بالا ناراض ہوجائیں گے) حکم یہ تھا کہ برآمدات کو سہارا دینے کیلئے روپے کی قدر میں کمی کرو۔ چنانچہ ڈالر کو مزید پانچ روپے مہنگا کردیا گیا۔ایک ڈالر 105روپے کی جگہ 110روپے میں آتا ہے۔ یہ انٹر بینک ریٹ ہے۔کرنسی ڈیلروں کے ہاں ڈالر 112کا ہو گیاہے۔ اب تیل مہنگی ہوجائیگی۔تیل کے ساتھ مہنگائی کا نیا طوفان یا سونامی آئے گا۔ڈالر مزید مہنگا ہوگا۔مارچ 2015ء میں آئی۔ایم۔ایف کے اگلے مشن کی”تشریف آوری“پر ہماری حکومت اُن کو 120روپے میں ڈالر لیکر تحفے میں پیش کرے گی اور امیر خسرو کا شعر مستعار لیکر عرض کرے گی۔
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخِ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تم نے اپنے لئے دو جہانوں کی قیمت لگائی ہے۔ اے میرے محبوب نرخ بڑھاؤ۔ اب بھی مارکیٹ میں تم سستے ہو۔ اگر ہم خواجہ حافظ شیرازیؔ کا شعر مستعار لیں تو بازار کے سودا کا نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔ حافظ نے آئی۔ ایم۔ایف کے ؔحسینوں کو مخاطب کر کے کہا ہے۔
اگر آں ترکِ شیراز ی بدست آرددل مارا
بخالِ ہندو ش نجشم سمرقند و بخارا
اگر شیراز کی خوبرو حسینہ میری دلجوئی کرے تو میں اس کے ایک خال کے بدلے سمرقند اور بخارا کے دو شہر بخش دوں گا۔
ہمارے دریا دل حکمرانوں نے پورا پاکستان ان حسینوں کے ہاتھوں میں گروی رکھ دیا ہے۔ پاکستان پر بیرونی قرضوں کی تاریخ پُرانی ہے۔ 1972ء تک ہم قرضوں کی ادائیگی کرسکتے تھے۔ سود کیساتھ اصل زر بھی واپس کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ ماضی قریب میں 1999ء کا سال ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس سال بیرونی قرضے 39ارب ڈالر تھے اور پاکستان سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا۔ڈیفالٹ اور دیوالیہ کے قریب تھا۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال کر پیرس کلب کے ساتھ معاہدہ کیا، کنسورشیم کو قرضوں کی ری شیڈولنگ پر راضی کرلیا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ ثبوت کیلئے 1999ء اور2000ء کے اقتصادی جائزے دستیاب ہیں۔2000ء سے لیکر 2008ء تک کا عرصہ پاکستان کی اقتصادی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ اس عرسے میں پاکستان کے سارے سود ادا کرکے اصل زر میں سے بھی پانچ ارب ڈالر کی رقم واپس کی گئی۔ اور 2008ء میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کم ہوکر 34ارب ڈالر رہ گیا۔ 2020ء تک اِس کو 10ارب ڈالر کی سطح تک لانے کی منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ 2000ء سے 2008ء تک پاکستانی کرنسی مستحکم رہی۔ 1999ء میں 62روپے تھی۔ نو سالوں میں 59اور 62روپے کے درمیاں ہی رہی۔زرِ مبادلہ کے ذخائر،مہنگائی کا اینڈکس اور دوسرے معاشی اہداف بھی پورے ہوئے۔ 2008ء سے 2017ء کے درمیاں پھر معاشی ابتری کا دور آیا۔ اسلئے شریف اور مشرف کا موازنہ لازم آتا ہے۔ اِس بات پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیئے کہ مشرف کے دور میں ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم کس طرح کم ہوکر 34ارب ڈالر تک آیا تھا۔ پانچ ارب ڈالر ہماری حکومت نے کس طرح ادا کئے تھے۔ سود کی ادائیگی کیسے ہوئی تھی۔ شریف کے دور میں بیرونی قرضے 85ارب ڈالر تک کیونکر پہنچ گئے۔اِس میں زرداری کے دور کا کتنا حصہ ہے؟ یہ صرف معاشی ماہرین کا کام نہیں، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔پاکستان کا عام شہری اِس بات کا جائزہ لے سکتا ہے کہ مشرف نے ملک کو اقتصادی استحکام دیا تھا۔ اُس کے بعد آنے والوں نے ایک بار پھر ملک کو 1999کی سطح پر پہنچا دیا۔”روئے سخن کسی کی طرف ہو تو تو رو سیاہ“ جون ایلیا کا شعر یہاں بر محل لگتا ہے۔
کوئی تم پہ معترض ہو اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا۔