دھڑکنوں کی زبان۔۔ ”خداوندان مکتب اور شاہین بچے“۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

شادی کی تقریب تھی۔۔مسکراہٹیں قہقہوں میں بدل گئی تھیں۔۔بھانت بھانت کے لوگ تھے۔۔وکیل۔۔ڈاکٹرز۔پولیس آفیسرز۔پروفیسرز۔مختلف محکموں کے نوجواں ذمہ دار۔۔این ٹی ایس میں آئے ہو ئے نوجوان اساتذہ۔۔ان کی قہقہوں میں،میں محو سا ہو گیا تھا۔۔مگر ان کی گپ شپ سے اتنا شور اُٹھ رہا تھا کہ کوئی بات سنائی نہیں دیتی تھی۔۔ہم تو کلاس میں خاموش بیٹھے رہتے۔۔ماں کہتی کہ کوئی بات کر رہا ہو تو خاموش رہا کر۔۔یا اللہ یہ اعلی ٰ تعلیم یافتہ لوگ۔۔یہ تو شور مچا رہے ہیں۔۔یہ تو ”مچھلی“بازار۔۔ایک زہر بھری ہنسی چہرے پہ پھیل جاتی ہے۔۔ان کے اساتذہ۔۔یہ تو اپنے اساتذہ کا حوالہ دیتے ہیں۔۔فلانا ”سر،،میم،،۔۔شور مچاتے۔۔میم۔۔ سر۔۔ کیا کبھی کسی ”میم“ یا”سر“نے ان سے یہ نہیں کہا کہ میں بات کر رہا ہوں۔۔ آپ ذرا خاموش ہو جائیں۔۔وہ آنکھوں میں اُترا ہوا احترام جو بڑھوں بزرگوں کے لئے ہو تا تھا۔۔وہسانسوں میں اُترا ہوا پیار جو اپنوں کے لئے ہوتا تھا۔۔وہ دل میں پیدا ہوئی شفقت جو چھوٹوں کے لئے ہوتی تھی۔۔وہ کہاں گئیں ہیں۔۔وہ کلاس روم میں ہوتی تھیں۔۔استاد سراپاکردار ہوا کرتا تھا۔۔ان کی”میموں“اور ”سروں“نے تو ان کو شور مچانا سیکھایا ہے۔۔یہ تو دوسروں کی بات نہیں سنتے ہیں۔۔یہ صرف اپنا سناتے ہیں۔ان کی دلیلیں۔۔ان کی تشریحات۔۔ان کا علم اس شور میں کہیں گم ہو جاتا ہے۔۔ہمارے زمانے میں سکول تربیت کی جگہ ہو تی تھی۔۔ہم سکول جاتے اس کے گیٹ میں پہنچ جاتے تو ایک خوف ساطاری ہوتا۔۔استاد کا خوف۔۔تربیت کا خوف۔۔کام کا خوف۔ہم اپنے کپڑے درست کرتے۔۔اپنی حرکتوں پہ قابو کرتے۔۔ہنسی روکتے۔۔نگاہیں نیچی رکھتے۔۔ہماری خوفزدہ نگاہیں استاد کو ڈھونٹیں۔۔استاد نے کہا ہے۔۔ آرام سے اپنی کلاس میں بیٹھو۔۔ہم پھر حرکت نہ کرتے۔۔ہمیں پھر استاد کی بات کا۔۔استاد کے حکم کا اور استاد کے عمل کا انتظار رہتا۔۔احترام کی ایک چھتری تھی جس کے نیچے ہم پرورش پاتے۔۔کتابوں میں موجود عبارتوں،فارمولوں،دلائل،تشریحات،تاریخ اور معلومات کی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی تہذیب،ترتیب،انداز،افکار،محبت،احترام،اقدار،اور اخلاق و کردار کی اہمیت تھی۔۔شکایت اس بات پہ کم ہوتی تھی کہ بچے نے گھر کا کام نہیں کیا ہے۔۔البتہ اس بات کی شکایت ہوتی تھی کہ اس نے کسی کو طعنہ دیا۔۔ایک دوسرے کو بر اکہا گیا۔۔ایک دوسرے سے جھوٹ بولا گیا۔۔ان سب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیکھ اور سن کر مجھے اپنا وہ زمانہ یاد آیا اور سوچنے پہ مجبور ہوگیا کہ کیا خداوندان مکتب اپنی وہ تربیت اور انداز چھوڑ گئے ہیں یا تعلیم و تربیت کا انداز ہی بدل گیا ہے۔۔تعلیم تو تربیت سے ثانوی چیز ہے۔۔آج بچوں کی یہ آزادی،یہ بے راہ روی،یہ اکڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ اداروں میں استاد کی وہ روایتی تربیت وہ اخلاق و کردار کی تعلیم کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہم بحیثیت قوم اپنے اقدار کھوتے جا رہے ہیں۔۔ہمارے بچے پہلے گھروں میں تربیت پاتے پھر سکول سے تربیت حاصل کرتے تھے۔آج گھروں میں دولت نے بچوں اور والدیں دونوں کو اندھا کر دیا ہے۔بچے کے جی میں جو آئے والدیں پورا کرتے ہیں۔۔ان کی ہر بری بھلی خواہش پوری ہوتی ہے۔۔پھر بری پہ قدغن کوئی نہیں۔۔اسی کو بچوں کی آزاد روی اور حوصلہ کہا جاتا ہے۔۔ان کو ان روایات اور تہذیب کا سبق نہیں پڑھایا جاتا جو ایک قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان ہے۔۔قومی زبان،قومی لباس،قومی شناخت،قومی روایات ہمارے نزدیک فضول سی چیزیں ہیں۔یہ نہ ہماری تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں نہ ان کو سیکھنا،اپنانا ہمارے لئے ضروری ہے۔۔ملک و قوم سے محبت، سچ اور صداقت کی حمایت،آپس میں محبت احترام،روایات کی پاسداری والدیں اور بزرگوں کی توقیر،قانون کی پابندی،مفید شہری ہونے کے اصول یہ سب تعلیم بلکہ اصل تعلیم ہیں۔۔نہ والدیں کو ان سب کی فکر ہے نہ خداوندان مکتب کو ان کی فکر ہے۔۔ہم بے شک مادی طور پہ آگے بڑھیں مگر اخلاقی طور پہ جتنا پیچھے جائیں اتنا ہماری نجات ہے۔۔خداوندان مکتب شیروں کی تربیت بھی کر سکتے ہیں گیدڑ بھی پالتے ہیں صداقت کی چٹان بھی بنا سکتے ہیں جھوٹ کا شیش محل بھی تعمیر کر سکتے ہیں جس کے باہر رنگینیاں ہو ں اور اندر اندھیرا۔۔یا اندر فانوس روشن ہوں اور باہر اندھیرا۔۔خداونداں مکتب کو چاہیئے کہ ان صداقتوں کا حوالہ ہوں تب وہ معمار کہلانے کا حق رکھتے ہیں ورنہ تو خاکم بدہن مسمار کہلایں گے جس کا خمیازہ قوم اٹھائے گی۔۔۔