تحریک انصاف کیلئے وقت کا اہم سوال۔۔ تحریر: محکم الدین

Print Friendly, PDF & Email

تناؤ کے شکار جاری ملکی حالات کے باوجود الیکشن 2018 میں دلچسپی رکھنے والے سیاسی کارکناں اور ٹکٹ کے طالبگار وں نے اس تیزی سے پارٹی بدلنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کہ روز درجنوں افراد پرندوں کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ پر بیٹھ کر شمولیتی تقریبات کو زینت بخشتے ہیں۔ بعض افراد ایسے بھی نظر آتے ہیں۔ کہ ایک ہار اُتارا اور دوسراہار گلے میں ڈال کر نئی پارٹی اور قیادت کی قصیدہ خوانی شروع کی۔ گویا روح نئی پارٹی میں جگہ بنانے کیلئے پہلے ہی سے تڑپ رہا تھا۔ مگر جسم سابق پارٹی کا ہونے کی وجہ سے نکلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔شکر خدا کا کہ آخر اُس پارٹی سے جان چھوٹی، اب تن من دھن سب نئی پارٹی پر قربان کریں گے۔ عام آدمی جو پارٹی میں صرف ووٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس کا ذکر ہی کیا۔ کہ پارٹی قیادت سے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ سو انتقام لینے دوسری پارٹی میں چلے گئے۔ اُن سے ہٹ کے پارٹیوں میں شامل ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے۔ جو ووٹ دینے کیلئے نہیں ووٹ لے کر اقتدار تک پہنچنے کیلئے پارٹی بدلتے ہیں۔ اور ان دنوں یہی سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ ایک مہینے کے دوران چترال میں کئی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جن میں کئی معروف سیا سی شخصیات اپنی پارٹیوں کو خیر آباد کہہ کر نئی پارٹیوں میں شامل ہو گئے۔ سابق ایم پی اے چترال غلام محمد اور انجینئر فضل ربی اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔اسی طرح،شہزادہ سکندرالملک اور شہزادہ امان الرحمن پاکستان تحریک انصاف میں اور شہزادہ ریاض دولوموچ اے این پی میں شامل ہو گئے۔ ملک میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے مابین محاذ آرائی میں بڑے پیمانے پر نوجوان نسل عمران خان کے وژن سے اتفاق کرتے ہیں۔ اور ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے وفاق میں عمران خان کی حکومت کو ملک کیلئے انتہائی سود مند قرار دیتے ہیں۔ اس وژن کے فروغ کیلئے چترال میں بھی پی ٹی آئی کے سنئیر کارکن قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایم پی اے بی بی فوزیہ،عبداللطیف، رحمت غازی، محمد قاسم، اسرارالدین، اور رضیت بااللہ کا اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے ہر حالات کا مقابلہ کیا۔ اور پارٹی کی بھر پور نمایندگی کی۔ یہی وجہ ہے۔ کہ پی ٹی آئی فی الوقت مضبوط شکل میں الیکشن میں حصہ لینے کی پوزیشن میں ہے۔ سابق تحصیل ناظم مستوج شہزادہ سکندالملک اور شہزادہ امان الرحمن کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کو بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اور پارٹی کارکنان کا کہنا ہے۔ کہ تحریک انصاف ایک مضبوط پارٹی کی صورت اختیار کرنے کی وجہ سے لوگ جوق درجوق اس میں شامل ہورہے ہیں۔ اور پارٹی کی قد کاٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے۔ کہ کیا تحریک انصاف میں شامل ہونے والے چترال کے شہزادگان پارٹی کے قائد عمران خان کے وژن سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوئے ہیں۔ یا الیکشن 2018میں اپنے لئے بطور اُمیدوار ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے اس پارٹی کا انتخاب کیا ہے؟۔ بلا شبہ شہزادہ سکندالملک اور شہزادہ آمان الرحمن چترال میں خاندانی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیپٹن (ر) سراج الملک کے تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے قریبی مراسم ہیں، نیز عمران خان کا شہزادہ خاندان کے ساتھ رشتے کی وجہ سے تعلق مزید مضبوط ہو چکا ہے۔ اس لئے دونوں شہزادگان کی پی ٹی آئی میں شمولیت ان ہی تعلقات کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے۔ تو کیاالیکشن 2018کیلئے ٹکٹ کے حصول میں یہ حضرات بازی نہیں لے جائیں گے؟اور خان صاحب اسی تعلق کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم کریں۔ تو چترال میں تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اور رہنما اس کو کس حد تک قبول کریں گے؟ اس میں کوئی کلام نہیں کہ شہزادہ سکندرالملک اور شہزادہ امان الرحمن ٹکٹ کے حصول کی خواہش نہ رکھتے تو بحیثیت ووٹر وہ پی ٹی آئی میں شامل نہ ہوتے۔ انہوں نے عمران خان کو یہ ضرور باور کرایا ہوگا۔ کہ دونوں کا ووٹ بینک موجود ہے۔ اب اگر شنید کے مطابق اپر چترال کی نشست کیلئے شہزادہ سکندالملک کو اور لوئر چترال کیلئے شہزادہ آمان الرحمن کو ٹکٹ دیے جائیں گے۔ تو پارٹی کے سنئیر قائدین، عبد اللطیف، ایم پی اے بی بی فوزیہ، رحمت غازی، اسرارالدین اور رضیت بااللہ کا کیا بنے گا؟ اور کیا پاکستان تحریک انصاف ایسی صورت میں چترال میں متحد رہ سکے گی یا دھڑے بندیوں کا شکار ہوگی۔ اور اس کا فائدہ کس پارٹی کو ملے گا۔ جو وقت کا اہم سوال ہے۔