ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ (فوکس) اور چترال یونیورسٹی کے زیر اہتمام قدرتی آفات سے آگہی کا قومی دن منانے کے سلسلے میں ایک سیمینار منعقد ہوا

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ (فوکس) اور چترال یونیورسٹی کے زیر اہتمام قدرتی آفات سے آگہی کا قومی دن منانے کے سلسلے میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں چترال کے مخصوص جغرافیہ کے تناظر میں مختلف آفات سماوی اور انسان کے ہاتھوں آنے والے آفات اور ان کو روکنے، تعدد کوگھٹانے اور ان کی تباہ کاریوں کوکم کرنے کے بارے میں ماہرین نے مقالے پیش کئے اور مختلف تجاویز بھی سامنے لائے گئے۔ چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری کی صدارت میں منعقدہ سیمینار کے مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بدقسمتی سے ہم ایسے قدرتی آفات کا سامنا کررہے ہیں جن سے ہم آسانی سے بچ سکتے ہیں اور اپنی تباہی کا سامان ہم خود کررہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک موثر اور عملی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی تیاری کے سلسلے میں وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں لیکن چترال کے نوجوان طبقے کی مکمل تعاون ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ چترال کے ہر اس شخص کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائے گا جوکہ چترال کی ترقی اور بھلائی کے لئے سوچتا اور کام کرتا ہو۔ انہوں نے کہاکہ قوم کی تعمیر بھی تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے جہاں نوجوان نسل زیر تعلیم ہوتی ہے جن میں رضاکارانہ جذبہ پیدا کرکے ہی ہم قدرتی آفات سے نمٹ کر اس کے نقصانات کو کم سے کم کرسکتے ہیں۔ اپنے صدارتی خطاب میں یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ میں اگر مقامی علم ودانش اور تجربے کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ میں کام کرنے والے مختلف اداروں کو ایک پیج پر لاکر ان کی وسائل اور توانائیوں کو یکجاکرتے ہوئے حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک کوارڈینیشن کونسل تشکیل دی جائے جبکہ چترال یونیورسٹی اس سلسلے میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اس سے قبل پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسر حسام الدین اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ماہرین حامد احمد میر اور غفور احمد نے کہاکہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق چترال کے طول وعرض میں ڈھائی لاکھ افراد قدرتی آفات کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ چترال زلزلے کے لئے ریڈ زون میں واقع ہے جوکہ اس کی حساسیت کو اور بھی بڑہادیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ماہرین کے مطابق چترال میں موجود گلیشیر گلوبل وارمنگ کے زد میں آکر آئندہ 35سال میں اپنے وجود کھودیں گے جوکہ انتہائی خطرے کی علامت ہے۔ اس موقع پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ میں مقامی علم ودانش کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہاکہ چاندتاروں کی گردش سے لے کر دوسرے قدرتی مظاہر سے رہنمائی حاصل کرکے زمانہ قدیم کے لوگ قدرتی آفات کی وقوع پذیری کی درست پیشگوئی کرتے رہے ہیں۔ اس موقع پر گلوبل وارمنگ کے بارے میں عوامی آگہی پھیلانے، واٹر شیڈ کی تحفظ، تعمیرات کو بلڈنگ کوڈ کے معیارکے مطابق کرنے اور جنگلات کی کٹائی کو کم سے کم کرنے اور پن بجلی کو ترقی دینے پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر منہاس الدین، اسسٹنٹ کمشنر چترال عبدالاکرم خان، آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ کے جنرل منیجر امیر محمد، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے ریجنل پروگرام منیجر سردار ایوب، ہاشو فاونڈیشن کے پروگرام منیجر شہزادہ رضاء الملک بھی موجود تھے۔