حج ایک عاشقانہ سفر۔۔ اداریہ چترال میل ڈاٹ کام

Print Friendly, PDF & Email

( اداریہ )حج درحقیقت ایک عاشقانہ سفرہے،اس کی ظاہری صورت بھی عجیب وغریب ہے، اور اس میں غضب کی جاذبیت ہے۔قدم قدم پر عشق ومحبت کی پُربہارمنزلیں طے ہوتی ہیں، حج کے افعال واعمال مظاہرعشق ہیں، اسی عاشقانہ بنیادکی وجہ سے اس کے افعال واعمال عقل وفہم میں آئیں یانہ آئیں،انہیں ادا کیا جاتاہے۔اس میں کسی قسم کی کوتاہی،غفلت یاسستی نہیں برتی جاتی ہے،چنانچہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، بزرگان دین اوراہلِ ذوق ومحبت نے بھی ٹھیک اسی طرح بے چوں چرااُنہیں اداکیاہے اوریہی عبدیت کے شان کے لائق ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تک حاجی اپنی عقل وفہم،پسندوناپسندکوحکم الٰہی پرقربان کرنانہ سیکھے یاجب تک یہ جذبہ پیدانہ ہو،وہ حج نہیں کرسکتا۔ اس لیے کسی کی عقل وفہم میں یہ کیونکرآسکتاہے کہ وہ دنیاکی تمام آسائشوں،آرام،راحت وسکون کوترک کرکے کفن نمادوچادریں لپیٹ کردیوانہ وارعشقیہ ترانہ ’’میں حاضرہوں،اے میرے اللہ!میں حاضرہوں‘‘پڑھتے ہوئے گھرسے نکل پڑے،یہاں تک کہ اپنے گھربار، عہدہ، منصب، مکان ودُکان،عیش وآرام تک کی کوئی پرواہ نہ رہے،صرف یہی نہیں بلکہ ایک چاردیواری کے گرددیوانہ وارچکرلگاتاپھرے۔
آیئے اس سفرعشق کی ایک جھلک دیکھتے ہیں: دلائل وبراہین بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجودبلکہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اوراپنے بندے کی ہر صداکوہرجگہ سے سنتے ہیں،جواب دیتے اورقبول کرتے ہیں،پھراُسے بچوں اورملک ووطن سے کیوں دور کیا جاتا ہے؟ مگر عشق کہتاہے کہ مالک کابلاوااورمحبوب ومعشوق کی چاہت ہے، اس کے بلاوے پرضرورجائیں گے،اورسفربھی اپنی مرضی سے نہ ہوگابلکہ معشوق نے جس کیفیت وہیئت بناکرآنے کامطالبہ کیاہے اس کے اپنانے کواپنے لیے باعث عزت وافتخارسمجھیں گے۔
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ عام حالات میں کوئی مہذب وباحیا مسلمان اپناپسندیدہ لباس اتارکرکفن کی دوچادروں کے ساتھ کسی سنجیدہ محفل واجتماع میں جاناتودرکنارگھرسے باہرنکلنابھی گوارانہیں کرتا، مگرجب حاجی کومحبوب کی جانب سے اس طرزلباس کواپنانے کاحکم ملتاہے تووہ اپنے تمام تقاضوں کوبالائے طاق رکھ کراس کوسرمایہ افتخارسمجھتے ہوئے دنیا بھر کے بڑے اجتماع میں جانے پرآمادہ ہو جاتا ہے، اور عملی طورپروہاں پہنچ جاتاہے۔
پھرحرم کی ایک نیکی پرلاکھ کا اجر ملتا ہے، اوربیت اللہ میں ہروقت نازل ہونے والی ایک سوبیس رحمتوں میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں،چالیس نمازپڑھنے والوں، اور بیس دیکھنے والوں کے حصے میں آتی ہیں،توعقل کاتقاضا یہ ہے کہ ہروقت بیت اللہ میں رہتے ہوئے اس کاطواف،نمازیں اوردیکھنے کی سعادت حاصل کی جاتی رہے،مگرہم دیکھتے ہیں کہ بیت اللہ کوخیربادکہہ کرمنیٰ کی سنگلاخ وادی میں چلے جانے وہاں سے عرفات،مزدلفہ کے لق دق صحرامیں رات گزارنے کاحکم ملتا ہے، ایسا کیوں ہے؟توعقل کے برعکس عشق کہتاہے کہ اس میں مولیٰ کی رضاہے جب تک بیت اللہ میں رہنے کا حکم تھاوہی عبادت تھی،جب منٰی، عرفات، مزدلفہ جانے کاحکم ملااب یہی سب سے بڑی نیکی ہے اوراللہ کے حکم کو بجا لانا ہے، اورحکم کی بجاآوری ہی حقیقی اطاعت وعبادت ہے۔
الغرض حج عشق ومحبت اورانقیادوتسلیم کانام ہے،اس کوعقل وفہم،ادراک وشعور،ذوق ومزاج کے پیمانوں سے نہیں ناپاجاسکتااورنہ ہی اس پر اللہ تعالیٰ کی عطاوعنایات بے پایاں کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔