لواری ٹنل پراجیکٹ۔۔تحریر: فخر عالم

Print Friendly, PDF & Email

لواری ٹنل پراجیکٹ کو حقیقی معنوں میں چترال کے لئے ‘موت وحیات’کا درجہ دیا جاتا رہا ہے کیونکہ لواری پاس (اونچائی سطح سمندر سے 12300فٹ) کوچترال کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور پسماندگی اور محرومیوں کا ذمہ دار بھی گردانا جاتاتھا جس کی وجہ سے ضلع چترال سال کے چھ ماہ ملک کے دیگر حصوں سے مکمل طور پر منقطع رہتا تھا جس کے نتیجے میں یہاں اشیائے خوردونوش کی شدید قلت، زندگی بچانے والی ادویات کی شدید قلت اور شدید مریضوں اور زخمیوں کو پشاور اور ملک کے دیگر شہروں تک پہنچانا بھی ممکن نہیں رہتا تھااور ضلعے سے باہر اس دوران والدین، بہن بھائی اور بچوں سمیت دیگر انتہائی قریبی عزیزوں کی شدید بیماری اور اموات کی صورت میں بھی چترال پہنچنا ممکن نہیں رہتا تھا جسے کئی مہینوں لواری پاس کے کھل جانے کا انتظار کرنا پڑ تا تھا۔ ان حالات میں چترالی عوام کی مستقل ذہنی کرب اور مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر لواری ٹنل پراجیکٹ کی اہمیت کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔ چنانچہ 20۔جولائی 2017ء چترال کی تاریخ میں وہ دن ہے جب ان کی قید تنہائی کا سلسلہ ختم ہو ااور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس پراجیکٹ کا افتتاح کیا جس کے ساتھ دن کے چوبیس گھنٹے لواری ٹنل سے موٹر گاڑیوں کی ٹریفک شروع ہوگئی اور ڈھائی گھنٹوں تک لواری پاس کی سنگلاخ چٹانوں میں دونوں جانب مجموعی طور پر 87سے ذیادہ موڑیں کاٹ کر اسے پارکرنے کی بجائے اب صرف چھ منٹوں میں اس سے پار ہونے کا تصور شاید کسی چترالی مسافر نے آج سے چند دہائی سال پہلے کیا ہوگا۔ اگر دونوں طرف اپروچ سڑکیں (17کلومیٹر دیر اور 18کلومیٹر چترال کی جانب سے) پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں تو دیر اور چترال کے درمیاں سفر میں مزید دو گھنٹوں کی بچت ہوجائے گی۔
لواری ٹنل پراجیکٹ کی کہانی بہت ہی پرانی ہے جس کا تعلق چترال کے ایک صوفی منش حکمران ہزہائی نس سر ناصر الملک (دور حکومت 1936ء تا 1943ء) کے دور سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں برٹش آرکایوز لائبریری میں موجود ریکارڈ کے حوالے سے ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ مہتر چترال جب شملہ میں وائسرائے ہند سے ملاقات کے لئے جارہے تھے تو انہیں درگئی ہائیڈر پاؤر اسٹیشن کی تعمیر کے لئے ملاکنڈ کی پہاڑی کی سرنگ بنانے کا عمل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے انگریز سائٹ انجینئر سے اس بارے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنے پر اسے بتایا گیا کہ وہ بھی عین ممکن ہے۔ چنانچہ مہتر ریاست چترال کی درخواست پر لواری ٹنل پراجیکٹ کی ابتدائی سروے کا کام شروع کیا گیا مگر اس وقت تک برٹش سرکارنے برصغیر پاک وہند کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا جس کی وجہ سے اس پراجیکٹ پرکوئی کام مزید نہ ہوسکا مگر ان ہی ڈرائنگ کی بنیاد پر ہی1955ء میں اس کا سروے شروع کرکے ایک سال کے اندر اندر مکمل کی گئی مگر بوجوہ اس پر کام کا آغاز نہ ہوسکا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں جب پی پی پی کو اقتدار ملی تو چترال-دیر-سوات کے حلقے سے منتخب ممبر قومی اسمبلی اتالیق جعفر علی شاہ نے اسمبلی کے فلور پر تواتر سے اس کا مطالبہ شروع کردیا۔جس میں وقت گزرنے کے ساتھ اتنی شدت آتی گئی اور اسمبلی سے متفقہ قرار داد پاس کروایا ، وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو مجبوراًاس پر سوچنا پڑا اور ستمبر 1975ء میں ایف۔ ڈبلیو۔ او کے ذریعے لواری ٹنل پر دیر سائڈ سے کام کا آغاز کردیا گیامگر فنڈز کی قلت کے باعث اگلے سال یعنی 1976ء میں ہی اس پر کام روک دی گئی جس کے ایک سال مارشل لاء لگ گئی اور سائٹ پر کام کا دوبارہ آغاز 2005ء تک ن ہوسکا جب صدر پرویز مشرف نے جشن شندور کے موقع پر ایک شاندار تقریب کے بعد اس پر کام کا باضابطہ افتتاح کردیا۔ اس میں جہاں حکمران وقت کی دلچسپی اور چترال کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت تھی، وہاں چترال کی سول سوسائٹی بھی متحرک ہوگئی تھی۔ سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی نے انجمن تحفظ حقوق چترال کے نام سے غیر سیاسی تنظیم کو منظم کیااور چترال سے پشاور تک تمام حلقہ ہائے اثر کے چیدہ چید ہ افراد کو اس میں شامل کرکے اس پلیٹ فارم سے لواری ٹنل کی تعمیر کے لئے مربوط طور پر مہم شروع کی۔ چترال،پشاور اور اسلام اباد میں مولانا عبدالاکبر چترالی کی قیا دت میں لواری ٹنل کی تعمیر کے لیے زبر دست احتجاج۔مظا ہرے جلسے اور درجنوں کی تعداد میں پریس کانفرنسز کیے گیےء چترال کے درودیواروں پر “اگر کوہاٹ ٹنل بن سکتا ہے تو لواری ٹنل کیوں نہیں؟”کی چاکنگ اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں جوکہ اس دور میں تحریک کو یاد دلاتی ہیں۔ لواری ٹنل کی ڈیزاین کو ریل ٹنل سے روڈ ٹنل میں تبدیل کروانے میں ونگ کمانڈر (ر) فرداد علی شاہ نے اہم کردارادا کیا۔ یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا چترال اور اس کے لوگوں کے ساتھ ایک فطری پیار اور لگاؤ کا جذبہ موجود تھا اور یہ اب بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں ان کی پارٹی کو صرف چترال سے قومی اسمبلی کی ایک نشست مل سکی تھی۔
اگست 2005ء سے کام کا آغاز نہایت زور وشور سے جاری رہا اور پہلے کی برعکس اب کام دونوں سائڈوں یعنی دیر اور چترال سائڈوں سے بیک وقت شروع کیا گیا اور 2009ء کی جنوری کا مہینہ بھی چترال کی تاریخ میں ناقابل فراموش دن ہے جب ٹنل کی کھدائی کاکام مکمل ہوا۔ چترال بھر میں سجدہ ہائے شکر بجالائے گئے اور چترال شہر سمیت بونی، گرم چشمہ، دروش اور مستوج میں خصوصی تقاریب منعقد ہوئے جس میں اس پراجیکٹ کی ایک اہم مرحلے کی تکمیل پر خوشی ومسرت کا اظہار کیا گیا۔ اس کے بعد سردی کے موسم میں لواری ٹاپ کی بندش کی بعد ہفتے میں دویا تین دن مخصوص اوقات میں ٹنل سے مسافرگاڑیوں کو گزار نے کی اجازت دی جانے لگی اور چترال میں اشیائے خوردونوش کی قلت پر بھی کسی حد تک قابوپایا گیا کیونکہ مال کی سپلائی کاکام جاری رہا۔ 2010ء میں پی پی پی کے دورحکومت میں لواری ٹنل پراجیکٹ پر کام کا رفتار ماند پڑتا گیا جوکہ آخرکار اگلے دو سالوں کے دوران کام کی مکمل بندش پر منتج ہوا جس کی وجہ بجٹ میں فنڈز کی عدم دستیابی بتائی جاتی ہے جبکہ بعض سرکاری ذرائع کے مطابق اس پراجیکٹ کے فنڈمیں دستیاب دو ارب روپے بھی دوسرے اضلاع میں روڈ پراجیکٹوں کی طرف منتقل کردئیے گئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار ملنے کے چار مہینوں کے اندر اندر سائٹ پر کام کا دوبارہ اغاز کردیا گیا جس کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کئی مرتبہ سائٹ کا خود دورہ کیااور اس کی تکمیل میں گہری دلچسپی کامظاہرہ کیا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو سختی سے ہدایت کردی کہ فنڈز کی دستیابی اب کوئی مسئلہ نہیں جس کی وجہ سے کام کو بروقت مکمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے۔ گزشتہ سال جب وہ پولوگراونڈ چترال میں جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے، تو انہوں نے جولائی 2017ء کو ٹنل کی افتتاح کا مہینہ قرار دیا تھا اور اسے عملی جامہ بھی پہنادی جب وہ 20۔جولائی 2017 میں افتتاح کے لئے چترال پہنچ گئے۔اس موقع پر بریفنگ میں بتادی گئی کہ لواری ٹنل پراجیکٹ پر اٹھنے والی لاگت26.855ارب روپے کا 80فیصد حصہ نواز شریف حکومت میں ریلیز ہوا۔ اس تگ ودو میں چترال سے قومی اسمبلی کے رکن شہزادہ افتخار الدین کی کوششوں کو بھی بہت ہی اہمیت حاصل ہے جس نے پلاننگ کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے ساتھ اپنی ذاتی مراسم کی بنا پر پراجیکٹ کے لئے ذیادہ سے ذیادہ allocationکراتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منصوبے کے فوائد:
٭چترال کا ملک بھر سے سال بھر رابطہ
٭تجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے معاشی ترقی کا فروغ
٭مقامی افراد کے لئے ملازمت کے مواقع
٭معدنی وسائل سے مالامال اس علاقے کی سال بھر ملک کے دیگر حصوں سے رابطے کی بحالی سے معدنیات کی صنعت کا فروغ
٭سیاحت کی صنعت میں ترقی کا رجحان
٭تجارتی اور عام سفر میں وقت کی بچت
٭گاڑی کے ایندھن اور خرچ میں بچت
٭بہتری روڈ سیفٹی معیارات کی بدولت حادثات میں کمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لواری ٹنل کی تکمیل اور موٹر گاڑیوں کی ٹریفک کے باوجود میں کرایوں میں کمی نہ ہونا
20۔جولائی 2017 کو لواری ٹنل کی افتتاح کے بعد موٹر گاڑیوں کی ٹریفک شروع ہوگئی ہے اور اب دن رات یہ سہولت مجموعی طور پر 12گھنٹوں سے ذیادہ کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے دستیاب ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی گھنٹے وقت اور ایندھن کی بچت کے باوجود مسافروں اور سامان کی کرایوں میں کمی واقع نہ ہونا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ایک باخبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ٹرک کو ٹنل کی وجہ سے 4500سے 5500روپے کے درمیان تیل کی بچت ہوجاتی ہے جبکہ مسافربردار گاڑی ہائی ایس میں یہ 3000روپے سے ذیادہ ہے۔ اس سب کے باوجود صوبائی حکومت ،دیراور چترال کی انتظامیہ نے ابھی تک چترالی عوام کو ٹرانسپورٹروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جوکہ پہلے کی طرح کرائے کے نام پر ان کی کھال ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔ چترال اور دیر کے درمیان کرائے (سامان اور مسافر) فی کلومیٹر کے حساب سے اب ہوائی جہاز کے کرایوں کی شرح سے بھی ذیادہ بتائے جارہے ہیں۔ چترال کی ضلعی انتظامیہ کی خاموشی نے عوامی حلقوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لواری پاس میں حادثات
لواری پاس کو مقامی لوگ خونی پاس بھی کہتے ہیں جبکہ چترال زبان میں لواری کا اصل نام ‘راولئی’ہے اور اس زبان میں ‘لئی’خون کو کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چترال کا کوئی گاؤں ایسا نہیں ملے گاجہاں لواری پاس میں مرنے والوں کی آخری آرام گاہیں موجود نہ ہوں۔ اعدادوشمار کی زبان میں تو درست نہیں بتایاجاسکتا لیکن گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہی کئی حادثات پیش آئے جہاں مرنے والوں کی تعداد 500 سے بتائی جاتی ہے۔ ذیادہ تر حادثات اس وقت پیش آئے جب حالات سے انتہائی طور پرمجبور ہوکر لوگوں نے اس خونی پاس کو پیدل عبور کرنے کی کوشش کی اور برفانی تودے کے نیچے دفن ہوگئے اور چونکہ مسافر قافلے کی شکل میں سفر کرتے تھے، اس لئے قافلے کے تمام افراداپنی جانوں سے چلے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق صوبائی وزیر قادر نواز خان کی وصیت
1970ء کے عشرے میں صوبہ سرحد میں قائم پی پی پی حکومت میں وزیر بلدیات قادر نواز خان لال کو لواری ٹنل کی تکمیل کے ساتھ انتہائی دلچسپی تھی جس کا اظہار انہوں نے اس وصیت کی صورت میں کچھ یوں کیا تھاکہ جب لواری ٹنل کی سرنگ مکمل ہوجائے تومیرے قبر پہ آکر کوئی پکار دے کہ لواری سرنگ مکمل ہوگئی اور گاڑیاں آر پا ر ہوگئیں۔ چنانچہ ان کے داماد اور نوشہرہ کے سابق ڈپٹی کمشنر غلام محمد نے جنوری 2009ء میں نوشہرہ سے دروش (چترال) کا خصوصی سفر کرکے ان کی یہ وصیت پوری کردی۔