داد بیداد۔۔شہری منصوبہ بندی اور اجڑی بستی۔۔ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

ایک چھوٹے سے قصبے میں دیہاتیوں کے پاس زرعی زمینوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں ان ٹکڑوں پر چاول،مکئی، گندم کی معمولی مقدار کاشت ہوتی ہے انگور،انار،اخروٹ اور خوبانی کے چند درخت کھڑے ہیں دہقان ا س زمین پر گائے بچھڑے بھی پالتا ہے بال بچوں کے لئے خوراک بھی اگاتا ہے سبزیاں بھی کاشت کرتا ہے پھولوں کا ذوق بھی رکھتا ہے ایک مرلہ زمین پر 50اقسام کے پھول سال بھر رنگ بکھیرتے ہیں اور خوشبو دیتے ہیں مگر یہ کام سرکار کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ایک بڑے افسر کو دفتر کے لئے بہت ساری زمین چاہئیے اُس کا دفتر دوکنال زمین پر تعمیر ہو سکتا ہے 3منزلہ عمارت مین دفتر کے 22کمرے بن سکتے ہیں تہہ خانے میں 20گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی سہولت ہو سکتی ہے مگر افسر کا غرور اور تکبر اس کو برداشت نہیں کرتا وہ حکم دیتا ہے کہ قانون لے آؤ،ایک کروڑ روپے کی زمین پولیس کے ذریعے 20لاکھ روپے میں لے لو دہقان اور اس کی بیوی کو بچوں کے ساتھ جیل میں ڈالو یہ دو پیسے کے لوگ ہیں افیسر کے تکبر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سو سال پہلے کا برٹش آقا ہے یا بڑا وڈیرہ اور سردار ہے عوام اُس کی نظر میں کیڑے مکو ڑے ہیں یہ ایک ٹاون کا مسئلہ نہیں مینگورہ اور چترال سے لیکر،دیر،تیمرگرہ،بٹ خیلہ،مردان،بنوں،مانسہرہ اور ڈی آئی خان تک ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے کا مسئلہ ہے جہاں دو کنال بنجر زمین پر سرکاری عمارت بن سکتی ہے وہاں ”کالے صاحب“کے دفتر کے لئے فصلوں اور باغوں کو اجاڑ کر 20کنال زرعی زمین پولیس کے ذریعے سرکاری قبضہ میں لے لی جاتی ہے قانون کا حوالہ دیکر مالک جائداد کو زمین کی قیمت کا پانچوان حصہ ادا کرکے بے گھر کیا جاتا ہے درخواست،عرضی، اپیل اور فریاد کی کوئی جگہ نہیں دیگر معاملات میں اس طرح کا ظلم ہو جائے تو قریبی چھاونی کے فوجی افیسر کو درخواست دی جاسکتی ہے فوجی افیسر عوام کی مدد بھی کر تاہے مگر زمین کے معاملے میں فوجی افیسر بھی مظلوم عوام کی مدد نہیں کرتا یہ شہری منصوبہ بندی کا مسئلہ ہے کہ سرکاری دفتر،عدالت،جیل،تھانہ،گودام کہاں تعمیر ہونا چاہیے اورکس طرح تعمیر ہونا چاہئیے پشاور صدر میں جوڈیشل کمپلیکس کی 3منزلہ عمارت 10کنال زمین پر تعمیر ہو سکتی ہے تو دیر،چترال،مانسہرہ اور دیگر چھوٹے قصبوں میں 30کنال زمین لینے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے؟ کیا شہری منصوبہ بندی کا کوئی قانون نہیں ہے؟ اسی طرح حکومت ایک چھوٹے قصبے میں 60کروڑ روپے کی لاگت سے بہت بڑی سرکاری عمارت تعمیر کرتی ہے بڑے بڑے ہو ٹلوں اورپلازوں کی تعمیر کے لئے سرمایہ داروں کو اجازت دیتی ہے مگر سیوریج لائن کا کوئی انتظام نہیں کرتی نکاسی آب کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کرتی دیر اور تیمر گرہ بٹگرام،شانگلہ،بونیر اور چترال تک پورے ملاکنڈ ڈویژن میں سیوریج لائن کا کوئی انتظام نہیں کوئی منصوبہ نہیں اس وجہ سے کنواں ناکارہ ہو گئے ہیں ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں 2000 گٹر اورسیپٹک ٹینک ڈالے گئے ہیں تین سو 300کنوئیں نکالے گئے ہیں گٹر کا سارا گند کنویں کے پانی کو آلودہ کر تا ہے زیر زمین پانی قابل استعمال نہیں رہا زمین کے اوپر فساد برپا کرنے کے بعد زمین کے نیچے بر بادی کی بنیاد ڈال دی گئی ہے صوبائی سول سکرٹریٹ میں ایک ماہ گھوم پھر کر 50بڑے افیسر وں کا انٹرویو کرنے کے بعد صحافی کو معلوم ہوا کہ قومی تعمیر کے 8محکموں میں کسی ایک کے پاس بھی شہری منصوبہ بندی کا کوئی انجنیر نہیں ہے شہری منصوبہ بندی کا کوئی ماہر نہیں ہے صوبائی اسمبلی میں اس حوالے سے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں چھوٹے قصبوں میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں عوامی مسائل کو وقعت دینے والا کوئی نہیں جہاں بدامنی ہے وہاں بندوق کے زور پر عوامی مسائل کو حل کیا جاتاہے جہاں بدامنی نہیں،چترال،دیر اور شانگلہ کی طرح امن ہے وہاں عوامی مسائل کو حل کرنے اور عوام کے مطالبات سننے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے لوکل گورنمنٹ کے پاس کوئی میکنزم نہیں ہے شہری منصوبہ بندی کا کوئی قانون یا ضابطہ موجود نہیں سیاسی جماعتوں کے پاس عوامی مسائل کے لئے وقت نہیں عدالتوں سے عوام مایوس ہو چکے ہیں اس لئے لے دے کے پاک فوج رہ جاتی ہے اگر دہشت گرد ی کی جنگ سے چند افیسروں کو فارغ کر کے لوکل گورنمنٹ کے انتظامی ڈھانچے میں فوجی افیسروں کو ذمہ داریاں دی جائیں توچھوٹے قصبوں میں سیوریج کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا سرکاری عمارتوں کے لئے چھوٹے قصبوں کی محدود زمینات کو بے دردی کے ساتھ قبضے میں لینے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا عوام ہر مسئلے کے لئے فوجی افیسروں سے رجوع نہیں کر سکتے اگر فوج نے دو چار محکموں کا انتظام اپنی تحویل میں لے لیا تو عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا قومی نمائندوں،سیاسی جماعتوں اور سول بیو روکریسی سے مایوسی کے بعد پاک فوج ہی واحد آپشن ہے کوئی اور آپشن دستیاب نہیں۔