دھڑکنوں کی زبان۔۔۔”محبت“‘محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

”محبت“
قسم سے میں نے بھی تک محبت کو سمجھنے نہیں پایا آخر یہ کیا چیز ہے؟اس کی تعریفیں ہوئیں اس کی تاویلیں ہوئیں۔۔اس پہ تبصیرے ہوئے۔۔اس کی تباہ کاریوں کی نشاندھی کی گیئں۔اس کی طاقت کا اندازا کیا گیا۔۔لیکن میری سمجھ میں پھر بھی کچھ نہیں آیا۔۔اگر یہ اتنی خاص چیز ہے تو خاص وعام کی اس تک رسائی کیوں ہے؟۔۔پھر ہر کوئی محبت کے قابل کیوں ہے؟۔۔اگر گوری رنگت خوبصورتی کا معیار ہے تو یہ کلموہی کس کھاتے میں ہیں۔۔اگر دولت محبت کے لئے ضروری ہے تو عریبوں کے دلوں پہ ہلچل کیوں ہے؟۔۔یہ دنیا۔۔یہ دنیا کی خوبصورتیاں،یہ جائیدادیں،یہ حویلیاں،یہ بنک بیلنس،یہ عہدے،یہ اقتدار کی چمکتی کرسیاں مگر دو دن کی عارضی۔۔۔ان سے محبت کیوں؟ان سے دل لگانا کیوں؟یہ بارش، یہ نشیلی ہوئیں،یہ پر کیف فضائیں،یہ جھرنے دیتے ابشاریں،یہ فلک بوس پہاڑیں،یہ جوار بھاٹے،یہ پہاڑ موجیں،یہ کناروں سے اٹکھیلیاں کرتی ہوئی شوخ لہریں۔۔آخر ان سے دل لگانا کیوں؟سورج نکلا اس پہ پیار آیا۔۔پھر ڈوبا۔۔چاند نکلا اس پہ پیار آیا۔۔ڈوبا۔۔پھر خنک صبح۔۔پیاری لگی۔۔پھر ان کا الٹ پھر۔۔دنوں کا آگے پیچھے آنا جا نا۔۔ان سے پیار۔۔۔ جو ناپائیدار ہے اس پہ یہ دل کیوں آتا ہے۔۔جس کی کوئی گرنٹی نہیں جس پہ اعتبار نہیں اس کو اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔۔یہ کونسا جذبہ ہے جو آگے پیچھے نہیں دیکھتا۔۔لیکن یہ طاقتور ضرور ہے۔۔یہ جیتواتی ہے۔۔یہ فتح کرتی ہے۔۔یہ حکومت کرتی ہے۔۔بڑے بڑے مغرور اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں۔یہ غضب کی چالاک ہے۔رشتے جوڑتی ہے۔۔مان بیٹی پہ قربان،باپ بیٹے پہ جان دے دے۔۔عاشق معشوق پہ مر مٹ جائے۔۔سپاہی مٹی پہ قربان ہو جائے۔۔عقیدت مند عقیدوں پہ کٹ مرے۔۔۔حق کے پرستار حق کے لئے میدان میں اتریں۔۔پھر کوئی اپنی خواہش کو اپنا خدا بنائے۔ہوس زر ہو،ہوس ملک گیری ہو۔۔کسی کی آنکھوں میں کسی کی دنیا آباد ہو۔۔کوئی کسی کے خوابوں کا ملکہ بنے۔۔کوئی کسی کے خوابوں کا شہزادہ بنے۔۔قربانیاں دی جائیں۔۔پھر شعر پڑھے جائیں۔افسانے لکھے جائیں۔۔فلمیں بنیں۔۔اس کی دستانیں دھرائی جائیں۔۔کوئی کسی کو دل کہے۔۔کوئی کسی کو جان کہے۔۔کوئی کسی کو زندگی کہہ کے پکارے۔۔کوئی کسی کو کھلی کائنات کہہ دے۔۔۔ بہاریں اس سے وابستہ کہے۔۔پھولوں کا رنگ اس سے ادھار کہے۔۔چاند کی چاندنی ان کے چہرے کی ضیا ء کہا جائے۔۔سورج کو ان کی آنکھوں کا نور کہا جائے۔۔سرو وصنوبر کو ان کا بدن کہا جائے۔۔ان کی باتوں کو شہد،لفظوں کو موتی،آواز کو بلبل،انداز کو کبک،نگاہوں کو تیر،زلفوں کو شام،پلکوں کو خنجر،دانتوں کو یاقوت اور ہونٹوں کو گلاب کی پنگڑی کہا جائے۔۔میں قاصر ہوں یہ سمجھنے میں پھر ان سب کو ”محبت“ کا نام دیا جائے۔۔ایک ہی راگ الاپا جائے۔۔کہ”محبت زندگی ہے“پھر زندگی پر کوئی اعتبار نہ کرے۔۔۔بے وفا کہے۔۔بے اعتبار کہے۔۔اعتبار کی تعریف کیا ہے؟جس میں مداومت اور تسلسل نہ ہو وہ بے اعتبار ہے۔۔انسان کو اپنے اوپر اعتبار نہیں۔۔عمر اس کی ہے مگر اس کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔۔زندگی اس کی ہے۔۔اس کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔۔ زندگی کا ساتھی اس کی ہے۔۔اس کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔۔دوسری شادی۔۔اف توبہ۔۔۔جوانی اس کی ہے اس کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔۔صحت اس کی ہے اس کے وفا نہیں کرتی۔۔۔بچے اس کے ہیں اس کے ساتھ وفا نہیں کرتے۔۔پھر کہاں کی محبت۔۔کونسی محبت۔۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔۔ہاں ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس جذبے کو کسی پائیدار چیز کے حصول کے لئے استعمال کی جائے۔۔طالب علم علم سے۔۔حق کے پرستار حق سے۔۔عادل عدالت سے۔۔۔استاد تعلیم و تربیت سے۔۔پاسبان پاسبانی سے۔۔محافظ خاک وطن سے۔۔حکمران رعایا کی خدمت سے۔۔لیڈر خلوص سے۔۔مالی درختوں سے۔۔باغبان پھولوں سے۔۔مفکر فکرو تدبر سے۔۔واعظ وعظ کے پر اثر ہونے سے۔۔مومن فکر آخرت سے۔۔۔تب جاکے محبت کے مقاصد حاصل ہونگے۔۔اور بات سمجھ میں بھی آئے گی۔۔کیا خیال ہے کہ یہ ہماری نادانی نہیں کہ ہم اس عظیم جذبے کو ضائع کر رہے ہیں۔۔قرآن نے کہا اللہ سے شدید محبت کرو۔۔۔بہت محبت جس کی کوئی منزل ہو۔۔نتیجہ ہو۔۔فائیدہ ہو۔۔مقصد ہو۔۔۔معیار ہو۔۔۔وہ محبت تجھے لپیٹے۔۔تجھے اپنے سائے میں لے لے۔۔تجھے ڈھانپ لے۔۔تو اس محبت میں ڈوب جائے۔۔اور مست مست ہو جائے۔۔یہی مدہوشی سمجھ میں آتی ہے۔۔۔ ہاں سمجھ میں آتی ہے۔۔