نون لیگ، پیپلز پارٹی مک مکا اور پی ٹی آئی ،،،تحریر: محمد صابر گولدور، چترال

Print Friendly, PDF & Email

.

نون لیگ، پیپلز پارٹی مک مکا اور پی ٹی آئی
جو ں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں تیزی دیکھاتی جارہی ہیں مسلم لیگ ن،پی پی پی حسب روایت الیکشن کی تیاریوں میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ مگر ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی پی ٹی ائی الیکشن کی تیاریوں میں نظر نہیں آرہی۔ اگر پی ٹی آئی کا ملکی سیاست میں کہی رول نظر آتاہے تو وہ محض پانامہ لیکس ہی محدود ہے پی ٹی آئی پنجاب اور سندھ میں کہی بھی نظر نہیں آرہی ہے اور ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مثلا جے یوآئی ف، اے این پی،پی پی پی،اور ن لیگ پی ٹی آئی کے خلاف آنے والے انتخابات میں اتحاد بنانے جارہے ہیں۔ جو کہ پی ٹی آئی کا نہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ میں مقابلہ کر ینگی۔ بلکہ ملک کے چاروں صو بو ں میں بھی پی ٹی آئی کے خلاف سر گرم عمل ہونگے۔ ہمارے ملک میں گذشتہ 30 35سالوں سے دو پارٹیوں کی درمیان مک مکا کا سلسلہ چلاآرہاہے۔ باری باری یہ دوسیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو موقع فراہم کرتی آئی ہیں۔ چونکہ دونوں پارٹیوں نے شروع ہی دن سے عوام کو بے وقوف بنانے کا تجربہ رہاہے۔ لہذا الیکشن قریب آتی ہی وہی پرانے حربے اور طریقہ وردات ن لیگ اور پی پی پی نے دہرنے شروع کردئیے۔ مگر اس سطح پر پی ٹی آئی کی جانب سے مکمل خا موشی کسی بھی خطرناک صورت حال سے کم نہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پختونخوا ہ میں جاری لانگ ٹرم ریفرمز کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت درکار ہے جب کے مقررہ مدت یعنی کہ پانچ سال لانگ ٹر م ریفرز کیلئے نا کافی ہے۔ جبکہ اس کے مدمقابل ن لیگ نے پنجاب میں اور پی پی پی نے سندھ میں شارٹ ٹرمز ریفرمزکا اعلان کرکے جن کے بل بوتے پر اپنی اپنی سیاست چکانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ جس کو الیکشن قریب آنے پر یہ دو پارٹیاں کیش کررہی ہے۔پی ٹی آئی کی جاری لانگ ٹرم ریفرمز کو تقویت و دوام بخشنے کیلئے مزید وقت درکار ہے جس کیلئے پختونخوا ہ کی عوام کوپی ٹی آئی کو مزید وقت دینے کی ضرورت ہے۔جس طرح 2013 میں پی ٹی آئی کو پختوانخواہ کی عوام نے مینڈیٹ دیا تھا۔اب ضرورت آنے والے انتخابات میں اسی میندیٹ کی ہے تاکہ پی ٹی آئی 2018 کے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ پختونخواہ کی تعمیر نو کرے اور پہلے سے جاری لانگ ٹرم ریفرمز کو جاری رکھ سکے وگرنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر پختواہ کی عوام پی ٹی آئی کو بھاری اکثیریتی ووٹ سے نہیں جتواتی تو پھر کسی اور پارٹی یا جماعت کے لوگ لانگ ٹرم ریفرمز کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی رہائی،ایان علی کی بیرانی ملک روانگی جیسے واقعات سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مک مکا کی سیاست الیکشن قریب آنے پر کافی زوروشور سے جاری ہے۔ آج کل دونوں جانب سے گرم جوشی اور خیر سگالی کے جذبات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔کیا ایسے میں پی ٹی آئی کی جانب سے محض پانامہ لیکس تک محدود رہنا دانشمندی ہے یا نا دانی؟
بظاہر پی ٹی آئی کی نظریں آنے والے انتخابات میں تخت اسلام آباد پر ہیں۔ مگر پی ٹی آئی کی اس بڑے معرکے کے لیے تیاری نظر نہیں آرہی ہے۔ پا نامہ لیکس پر فیصلہ سپریم کورٹ نے محفوظ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کو چاہے کہ دوسرے ایشوز پر توجہ مرکوز کرے اور عوام الناس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے۔ محض پانامہ لیکس کو بنیا د بنا کر وزارت عظمٰی کی کرسی پر نظریں جمانا درست نہیں جسے ملکی سیاست میں غیر سنجیدہ سیاست کے سوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جبکہ نواز شریف اور آصف زرداری منجھے ہوئے کھیلاڑی جیسا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاست کا ایک ادنہ طالب العلم ہونے کے ناطے میں یہ بات ضروری سمجھتا ہوں کہ دو پارٹیوں کی مک مکا ہمارے ملک کے مفاد میں بلکل بھی نہیں اور اس مک مکا کا توڑ صرف اور صرف خان صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ مگر ایک بات میں پھر دہراتا چلاوں کہ ملکی سیاست کے اہم محاز پر خان صاحب مجھے کہی نظر نہیں آرہے ہیں۔ اگر کہی ہیں بھی تو محض زبانی و کلامی بیان میں مگر عملی میدان میں خان صاحب کو عوام کی توجہ مرکوز کراکے عوام کا دل جیتنا ہوگا۔کیونکہ مقابلہ بہت سخت ہے اور وقت بہت کم۔۔۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں 36 اضلاع میں سے 35 میں نون لیگی ناظمین منتخب ہوئے صرف ایک ضلعے میں مسلم لیگ ق کا ناظم منتخب ہوا۔ ان 35 اضلاع میں نون لیگ کی جیت یقینی ہے کیونکہ یہ35 اضلاع نون لیگ کے ہاتھوں میں ہیں۔ اب یہی صورت حال سندھ میں بھی ہے۔ اس ساری صورت حال میں پی ٹی آئی پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان سے بھاری اکثریتی ووٹ لیکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیگی یا نہیں؟
ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ یہ پاکستانی سیاست ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں این۔آر۔ او اور میثاق جمہوریت جیسے ڈیل طے پا چکے ہو۔مگر میرا زاتی تجزیہ یہ ہے کہ اس بار وفاق میں مخلوط حکومت بننے جارہی ہے۔ نون لیگ پانامہ اسکینڈل،ڈان اسکینڈل جبکہ پی پی حسین حقانی،ایان علی کی وجہ سے عوام کی غیض و غضب کا شکار دیکھائی دیتے ہیں۔ کراچی سے ایم کیو ایم کی صفائی کے بعد ان کی جگہ پی ایس پی نے لے لیا ہے۔ جبکہ ماضی کی مقبول پارٹی جماعت اسلامی بھی شہرقائد میں اپنی گرفت مضبوط کرتی جارہی ہے۔ ملکی سیاست اور ہمارے سیاست دان کنفیوس لگتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو چاہے کہ فوری طور پر خیبرپختونخواہ میں شارٹ ٹرم ریفرمزکا جلد سے جلد اعلان کرے اور اس حوالے سے عملی اقدامات بھی اٹھائے کیونکہ یہ ہمارے ملکی سیاست کی روایت رہی ہے۔ وگرنہ ہمارے بھولے بھالے پاکستانی عوام نون لیگ اور پی پی اور اس جیسی پارٹیوں کے دھوکے میں آسانی سے آجائیں گے۔ جو کہ ملک کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔ پی ٹی آئی کو وفاق کی حد تک ایک موقع ضرور ملنا چاہیے تاکہ پی ٹی آئی ملک کے لیے واقعی میں کچھ کر سکے۔زرداری ایک جبکہ نواز شریف تین بار وزارت کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں۔ کیا عمران خان کوایک موقع نہیں دینا چاہیے۔