“ٰٰصحت انصاف کارڈ”صوبائی حکومت کا انقلابی منصوبہ تحریر: زارولی زاہد

Print Friendly, PDF & Email

“ٰٰصحت انصاف کارڈ”صوبائی حکومت کا انقلابی منصوبہ تحریر: زارولی زاہد

لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ہر ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے۔ترقیافتہ ممالک کی حکومتیں اپنی اس ذمہ داری کو پوری کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہیں اور وہاں پر لوگوں کو علاج معالجے کی بنیادی سہولیات کی مفت فراہمی ان کے گھروں کی دہلیز پر یقینی بنائی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شہریوں کوصحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں دعوے تو بہت کئے گئے مگر عملاً ابھی تک کوئی قابل ذکر اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار تو ہم سب کے سامنے ہے جبکہ نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ کروانے کے بارے میں اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ عوام سوچ بھی نہیں سکتے۔نتیجاً ہمارے ملک میں غریب عوام کیلئے علاج معالجے کی معیاری سہولیات کا حصول سب سے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں صحت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر لوگوں کا سب سے زیادہ خرچہ ہورہاہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبر پختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومت ملک کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس نے صوبے کے عوام کو علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ایک انقلابی اور مثالی منصوبے کا اجراء کیا ہے جس کے تحت غریب اور مستحق لوگوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات کی فراہمی کا باقاعدہ آغاز ہو چکاہے۔صحت سہولت پروگرام کے نام سے صوبائی حکومت کے اس ہیلتھ انشورنس سکیم کے تحت صوبے کی آدھی سے زائد آبادی کو ہیلتھ انشورنس کارڈز(صحت انصاف کارڈز)جاری کئے جارہے ہیں۔ابتدائی طور پر یہ منصوبہ جرمن حکومت کے مالی تعاون سے صوبے کے چار منتخب اضلاع بشمول کوہاٹ، مردان، ملاکنڈ اور چترال میں شروع کیا گیا تھا۔ان اضلاع میں ایک سال کے اندر اندر اس منصوبے کے حوصلے افزاء نتائج اور اس کی افادیت کے پیش نظر صوبائی حکومت نے اس منصوبے کو باقاعدہ اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ بنا کر اسے پورے صوبے تک وسعت دی اور مالی سال 2016-17کے ترقیاتی پروگرام میں اس منصوبے کیلئے پانچ ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کر رکھی ہے۔اگر چہ تر قی یافتہ مغربی ممالک میں شہریوں کیلئے ہیلتھ انشورنس سکیم کوئی نئی بات نہیں لیکن ترقی پزیر اور خصوصاً جنوبی ایشیا ئی کی ممالک میں شہریوں کیلئے ایسے کسی فلاحی سکیم کی مثال نہیں ملتی۔ خیبر پختونخوا حکومت کے اس ہیلتھ انشورنس سکیم کی ایک خاص بات اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک حکومتی منصوبہ ہے جس میں انشورنس کیلئے پریمیم کی رقم بھی صوبائی حکومت اپنے وسائل ادا کررہی ہے جبکہ دیگر ترقیافتہ ممالک میں ہیلتھ انشورنس کی سہولت نجی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں جن کیلئے پریمیم کی رقم شہریوں کو خود ادا کرنی پڑتی ہے۔”صحت سہولت پروگرام”کے تحت پہلے سے وضع کردہ ایک طریقہ کارکے مطابق صوبے کے 18لاکھ خاندانوں کو” صحت انصاف کارڈ”جاری کئے جارہے ہیں جس کے ذریعے ہر خاندان کے آٹھ آٹھ افراد سالانہ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے تک علاج معالجے کی مفت سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اس سکیم سے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد یعنی صوبے کی آدھی سے زائد آبادی مستفید ہو گی۔
صحت انصاف کارڈ کے ذریعے علاج معالجے کی مفت سہولیات نامزد کردہ ہسپتالوں سے حاصل کی جاسکتی ہے اور ان نامزد ہسپتالوں میں چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ نجی ہسپتال بھی شامل ہیں۔حال ہی میں صوبے کے چار بڑے تدریسی ہسپتالوں بشمول لیڈری ریڈنگ ہسپتال، خیبر ٹیچنگ ہسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور ایو ب ٹیچنگ ہسپتال کے علاوہ نجی شعبے کے دو نامور ہسپتال رحمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پشاور اور نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال پشاور میں بھی صحت انصاف کارڈ کے تحت مفت علاج کے عمل کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔اس کارڈ کے تحت حاصل ہونے والے مفت طبی سہولیات میں سرطان، یرقان، کالا یرقان، گُردے کی پیوندکاری، دل،جگر اور گُردوں کی بیماری ذیابطیس،حمل اور زچگی اور حادثاتی چوٹ کے علاوہ اُن تمام بیماریوں کا علاج بھی شامل ہے جن کیلئے ہسپتال میں داخلہ ضروری ہو۔اس کے علاوہ پروگرام کے تحت ہسپتال میں حمل یا زچگی کی صورت میں سفری اخراجات کی مد میں ایک ہزار روپے، ہسپتال میں داخلے کی صورت میں دوسرے دن سے روزانہ 250روپے اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں علاج کیلئے بھیجے جانے اور داخلے کی صورت میں دو ہزار بطور سفری اخراجات بھی دئیے جا تے ہیں اگر نامزدکردہ ہسپتال میں دوران علاج مریض کی موت واقع ہو جائے تو اس کی تجہیز و تکفین کیلئے لواحقین کو دس ہزار روپے اداکئے جاتے ہیں۔سکیم کے تحت ہسپتال میں داخلے کے دوران جنرل وارڈ میں داخلہ،ڈاکٹر اور سرجن کے اخراجات، تجویز کردہ ادویات، آئی سی یو کے اخراجات، بے ہوشی کے ڈاکٹر کی فیس، اپریشن تھیٹر فیس اور تشخیصی ٹیسٹ وغیرہ کے اخراجات بالکل مفت ہیں۔صوبائی حکومت باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اس سکیم کو مستقل شکل دینے،اس میں مذیدبیماریوں کے علاج کو شامل کرنے جبکہ اس سکیم کے تحت سرکاری ملازمین کیلئے بھی پیکج متعارف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اب تک اس منصوبے کے تحت سولہ ہزار سے زائد مریضوں کو تقریباً 21کروڑ روپے مالیت کا مفت علاج فراہم کیا گیا ہے جن میں سرجیکل کے 7707، میڈیکل کے 7780، انجیو گرافی کے 180، انجیو پلاسٹی کے 94، ڈیلوری کے 295، اور سی سیکشن کے 235کیسز شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ا ب تک تقریباًآٹھ لاکھ اسی ہزار صحت انصاف کارڈ جاری کئے جا چکے ہیں جبکہ باقی کارڈز کی تقسیم کے عمل کو اسی سال 31مئی تک مکمل کیا جائے گا۔ اس سکیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے نامزدکردہ تمام ہسپتالوں،حامل کارڈز،بیماریوں، علاج معالجے پر آنے والی لاگت اور دیگر تمام تر تفصیلات آن لائن مہیا کردی گئیں ہیں جو روزانہ پر اپ ڈیٹ کئے جاتے ہیں۔مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ “صحت انصاف کارڈ”موجودہ صوبائی حکومت کا ایک منفرد، تاریخی،غریب پروراور لائق تحسین منصوبہ ہے جس کی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء میں کوئی مثال نہیں ملتی۔