مستوج ضلعے کی بحالی ضلع چترال کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے موجودہ ضلعے کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔مغفرت شاہ

Print Friendly, PDF & Email

چترال (ظہیرالدین) ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے کہا ہے کہ مستوج ضلعے کی بحالی ضلع چترال کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے موجودہ ضلعے کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے لیکن اس بارے میں ہمیں جذبات سے ذیادہ حقیقت پسندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس کا مطالبہ آگے لے جانا چاہئے اور اس سلسلے میں سول سوسائٹی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحصیل کونسل کے ممبران اور ویلج ناظمین پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ طلب کرکے ان کی حمایت بھی حاصل کرلی جائے۔ پیر کے روز کنوینر مولانا عبدالشکور کے زیر صدارت ضلع کونسل کے اجلاس میں ضلع مستوج کی بحالی سمیت ضلع کونسل کے زیر اہتمام ترقیاتی کاموں کو پراجیکٹ لیڈروں کے ذریعے کرانے اور ضلع کونسل کے اراکین کے لئے اعزازیہ مقرر کرنے کے تین نکاتی مطالبہ صوبائی حکومت کے سامنے رکھنے کے لئے خصوصی طور پر بلائی گئی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے میں متعدد حکومتیں وعدے کرنے کے باوجود ناکام رہے جبکہ اس سمت میں اب مثبت پیش رفت اس صورت میں ہورہا ہے کہ ضلع میں پولیس کے تین سرکلز کھولنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں اور دروش کو تحصیل کا درجہ دینے نوٹیفیکیشن عنقریب جاری ہوگا۔ ضلع ناظم نے ٹھیکہ داروں کے بجائے پراجیکٹ لیڈروں کے ذریعے ترقیاتی کام کرانے اور ممبران ضلع کونسل کے لئے اعزازیہ کے بارے میں کہاکہ ضلعی حکومت نے پہلے ہی یہ دونوں مسئلے صوبائی حکومت کے ساتھ اٹھالیا ہے جن پر عنقریب احکامات جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ انہوں نے خواتین ارکان کونسل کے احتجاج کے بارے میں کہاکہ ضلعی حکومت نے کبھی بھی حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا فرق رکھنے کی بجائے دونوں میں ترقیاتی فنڈ مساویانہ تقسیم کی اور نہ ہی ان کو اپنے کوٹے کے ترقیاتی فنڈ کے استعمال میں ضوابط پر مجبورکیا گیا لیکن اس سب کے باوجود ان کا احتجاج ناقابل فہم ہے۔ ضلعے کے مسئلے کو پی ٹی آئی کے عبداللطیف نے کہاکہ مستوج ضلعے کا مطالبہ اپنی جگہ الگ ہے لیکن انہوں نے فی الحا ل دروش اور موڑکھوکے ساتھ تورکھو کو دوالگ تحصیل بناکر یہاں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن بنانے کی طرف پیش رفت کی ہے اور یہ پی ٹی آئی کا اپروچ ہے کہ ضلع بننے تک دو نئی ٹی ایم ایز کا قیام عمل میں لائے جائیں۔ سہ نکاتی مطالبے کے حق میں مولانا انعام الحق، غلام مصطفی ایڈوکیٹ، محمد یعقوب، عبدالقیوم، سمیہ قادر، شیر محمد شیشی کوہ، شیر محمد ارندو، رحمت ولی، مولانا عبدالرحمن، محمد حسین، شیر عزیز بیگ، رحمت الٰہی، عبدالوہاب اور دوسروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت کو ان مطالبات کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ جے یو آئی کے مفتی محمود الحسن نے کہاکہ کم وبیش 15ہزار مربع کلومیٹر پر محیط چترال کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کی بجائے کوہستان کو دو اضلاع بنانا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے جوکہ ایک رکن اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر کی گئی ہے۔ انہوں نے تورغر، ہنگو، لویر دیر، ٹانک اور دوسرے اضلاع کی کم رقبے اور انتہائی کم آبادی کو خاطر میں لائے بغیر انہیں اضلاع کا درجہ دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ چترال کو محض کم آبادی کی بنیاد پر دو اضلاع میں تقسیم نہ کرنا مغنی خیز بات ہے۔ اجلاس جب شروع ہوا تو پی ٹی آئی کے عبداللطیف نے پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے ہوتے روزنامہ ڈان، بزنس ریکارڈر اور دوسرے اخبارات میں خواتین ارکان کونسل کے شائع شدہ بیانات کے تراشے پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں خواتین کے ساتھ ناانصافی نہیں برتنی چاہئے اور قومی اخبارات میں ان کا بیان چھپ جانا اس ضلعے اور اس ایوان کے بارے میں منفی تاثر دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم ہاؤس کے خواتین ارکان کو منانے میں کیوں ناکام رہے اور ان کے تحفظات اور شکایات کو کیوں دور نہ کرسکے تاکہ ایوان کے معاملات خوش اسلوبی طے پاسکیں۔ اس پر پی ایم ایل (ن) کے محمد حسین اخبارات میں بیان بازی کو عبداللطیف کی کارستانی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں سیاست بازی سے باز آنا چاہئے جبکہ ضلعی حکومت نے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے خواتیں ممبران کو مساوی فنڈ ز دے دئیے ہیں جس کے بعد احتجاج کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا۔ اس مسئلے پر شیر عزیز بیگ، عبدالوہاب، غلام مصطفی ایڈوکیٹ، رحمت ولی، مفتی محمود الحسن، مولانا عبدالرحمن اور دوسروں نے خواتین کی طرف سے ترقیاتی فنڈز میں ناانصافی کے الزامات کی چھان بین کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے، ان کو اپنے فرائض سے آگاہ کرنے کے لئے ٹریننگ دینے کا مطالبہ کیا۔ کنوینر مولانا عبدالشکور نے اپنی رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ ہم ہاؤس کے ضابطہ کار کے عین مطابق کونسل کے وقار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ خواتین کے حقوق کا رٹ لگانے والی رکن کونسل خود ہی خواتین کے حقوق کی پامالی میں ملوث ہے جس نے دستکاری سنٹروں کی قیام کے لئے مقامات کی نشاندہی کے لئے کہاگیا تو انہوں نے ابنوشی کے منصوبے پیش کئے جوکہ ضابطے کے مطابق نہیں تھے اور دستکاری سنٹر کی بجائے انفراسٹرکچر کا مطالبہ نہ مانا گیا تو انہوں نے واویلامچانا شروع کردیا۔ انہوں نے ضلع ناظم کی تجویز پر رکن کونسل عبداللطیف کو پی ٹی آئی کے، مفتی محمود الحسن کو جے یو آئی کے اور پی پی پی کے شیر عزیز بیگ کو اے پی ایم ایل سے تعلق رکھنے والی ارکان کونسل سے رابطہ کرکے ان کے دیگر تحفظات معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ کنوینر نے بعد میں اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔