دھڑکنوں کی زبان۔۔” فتح کا جشن یافتح کا شکرانہ “محمد جاوید حیات۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ہرکام اللہ کے حکم سے انجام پاتا ہے۔۔۔اللہ سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔پھر اسلام کی روح حرکت ہے محنت ہے۔۔جانفشانی ہے۔۔۔اللہ کے نبی ص کی موجودگی میں کفار سے ٹکراٶ اسباب کے بغیر نہیں ہوا۔۔۔جنگ احد میں معمولی سی کوتاہی تھی کتنی حزیمت اٹھانی پڑی۔جنگ حنین میں اصحاب کبار رض کو شاید اپنی فوجی قوت پہ ساعت بھر کے لیے بھروسہ رہا تو جنگ کی حالت کیا ہوئی اس سے واضح ہے کہ اللہ پہ بھروسہ مسلمان کا پہلا ہھتیار ہے۔ہم نے حالیہ جنگ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ اللہ کی مدد کے بھروسے پہ لڑی۔۔ہم نے عین اسلامی اصولوں کے مطابق دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ہم نے أخری حملے کا Narrative عین اسلامی رکھا۔۔ہم نے سنت نبوی کے اطباع میں اذان سحر کے ساتھ اپنے شیروں کو حملہ کرنے کا حکم دیا۔۔ہم عین اسلامی لحاظ سے اور قران کے حکم کے مطابق اپنے أپ کو کیل کانٹے سے لیس کیا۔۔ہماری شیر دل فوج جہاد کی فضیلت سے سرشار اور شوق شہادت میں محسور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔۔۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر ہمارے پاس دشمن کے ہتھیاروں سے کمزور ہتھیار ہوتے اگر ہماری فوج تربیت کے لحاظ سیان سے کمتر ہوتی اگر ہمارے شیردل جوان ہمت میں ان سے کم ہوتے اگر ہماری ملی جذبہ اس قوم سے کمزور ہوتا تب بھی ہم فتح یاب ہوتے یہ ناممکن تھا۔۔۔ان سب کے باوجود ہمارے پاس اللہ کی مدد تھی برملا مدد تھی جس کے لیے ہمیں اس مہربان اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔۔گڑگڑا کر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس رب نے ہمیں آزاد وطن سے نوازا ہے اسی رب نے ہمیں بہادر جوانوں سے بھی نوازا ہے۔پیشہ ور اور اہینی اعصاب کے مالک جنرلوں سے بھی نوازا ہے۔۔جو لوگ کہتے ہیں کہ جنگ ختم ہوئی جنگ کہیں ختم نہیں ہوئی ہمارے جہاد کاسفر جاری و ساری ہے تا قیامت جاری رہے گا۔جب تک دین زندہ ہے جہاد زندہ ہے۔۔
تن بے روح سے بیزار ہے حق خداۓ زندہ زندوں کا خدا ہے
ہمارا جشن سجدہ شکر ہے۔۔ہماری خوشیاں اپنے اللہ کی رضا سے وابستہ ہیں۔ہم شیخیاں نہ بگھاریں ہم مغرور نہ ہوجاٸیں۔ہم کسی کو چیلنچ نہ کریں۔ہم اپنے جوانوں کو اپنی دعاٶں،اپنے سینوں اور اپنے دلوں میں یاد رکھیں۔قوم نے جس زمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس پر رب کا شکر ادا کریں یہی ہمارا معیار ہے۔بے شک دشمن ہمارے سامنے بے بس ہوگیا ہے بلکہ رب نے اس کو ہمارے سامنے بے بس کر دیا ہے۔ہم حق پر تھے وہ ناحق تھا۔۔اس کی ہٹ دھرمی تھی غرور اور بے غیرتی تھی۔۔مگر وہ تنہا نہیں اس کے ساتھ اس کے حواریوں کو شکست ہوئی ہے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔۔مگر جب ہمارا رب ہمیں بھولے گا نہیں ہم وہی بنیان مرصوص ہیں۔۔۔دشمن شوق سے ہم سے ٹکرائیں منہ کی کھائیں۔ہمیں ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔۔یہ کوٸ کرکٹ کا میچ نہیں کہ ہم جیت گئیتو ناچیں گے۔۔یہ بقا کا ٹکراٶ ہے۔یہ وجود کا تصادم ہے۔یہ جان کی بازی ہے۔یہ آگ،خون اور جنون کا کھیل ہے۔۔ اس کا نتیجہ بھیانک ہوتا ہے۔۔اس کو قبول کرنا بھی دل گردے کا کام ہے۔دشمن سے دگنا بیدار رہنا ہوتا ہے۔رب نے کامیابی کے لیے جو معیار مقرر کیا ہے اس معیار پہ پورا اترنا ہوتا ہے۔دنیا کی تاریخ گواہ یے کہ مسلمان نے جو بھی جنگ لڑی وہ حق کے لیے اور بہادری سے لڑی ہے ایسی جنگ میں وہ کبھی ناکام نہیں ہوا مگر جہان اس کی تیاری،بہادری اور منصوبہ بندی میں کوتاہی ہوئی ہے اس کو حزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ہمارے پاس 1971ء کے زخم تروتازہ ہیں۔۔انہی زخموں نے ہمیں بہادر بنایا ہے۔۔ہمیں کوشش پہ ابھارا ہے ہم سے تیاری کراٸی ہے۔۔ہمیں سبق سیکھایا ہے۔ہماری فوج کا ہر ہر جوان قوم کی آنکھ کا تارہ ہے
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ۔۔
جوانی جس کی ہو بے داغ ضرب ہو کاری۔۔۔
لیکن اس معیار کا خیال رکھنا ہے اس کو برقرار رکھنا ہے۔۔جس رب نے ہمیں یہ معیار دیا ہے اس کا شکر بجا لانا ہے اس کو بھولنا نہیں۔غرور کا بت ہمیشہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔عاجزی،سنجیدگی اور انکسار جیت جاتی ہے۔ہمیں جشن نہیں شکر بجا لانا چاہیے۔یہی ہمارا سہارہ ہے۔پاکستان کے ذرے ذرے کے لیے ہمارا قطرہ قطرہ خون حاضر ہے یہی ہماری شناخت ہے۔اس غیرت کے ساتھ ساتھ ہمارا جذبہ تعمیر زندہ ہونا چاہیے۔یہ شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسی غیرت مند قوم جو اپنے وطن کے لیے اپنی جان نچھاور کر سکتی ہے وہ اس کی دولت کیسے لوٹ سکتی ہے وہ اس کی ترقی کے لیے کوشش کیوں نہیں کرسکتی۔وہ اس کی معدانیات کو امانت کیوں نہیں سمجھتی۔وہ اس کی دولت کو امانت کیوں نہیں سمجھتی ہے یہ المیہ ہے اس سے ہمیں نکلنا ہے۔۔۔اللہ ہماری حفاظت فرماۓ۔۔۔۔۔۔۔