داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مو سمی پیشگو ئی

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مو سمی پیشگو ئی
آج کا دور مشینوں کے ذریعے مو سمی پیشگو ئی کا دور ہے سائنس اور ٹیکنا لو جی کی تر قی نے ہواوں کی رفتار کو ناپنا شروع کیا ہے بار شوں کے تیور دیکھے جا رہے ہیں بر فانی مو سموں اور برف زاروں کو پگھلا نے والی در جہ حرارت پر مشینوں کی گہری نظر ہے مگر 100سال پہلے ایسی کوئی ٹیکنا لو جی دستیاب نہیں تھی ہماری نئی نسل حیرت میں ڈو بی ہوئی ہے کہ اُس وقت لو گ کس طرح آنے والے مو سموں کا اتہ پتہ معلوم کرتے ہونگے وہ مو سمی پیشگو ئی کے فن لطیف سے واقف ہو نگے بھی یا نہیں؟ خیبر پختونخوا کی پہا ڑی وادیوں میں سے جن علا قوں کو آج کل کوہستا ن اور چترال، دیر وغیرہ کہا جا تا ہے ان وادیوں کے ساتھ مشرقی سمت میں پھیلے ہوئے غذر، یا سین، اشقومن، گلگت،ہنزہ، بلتستان، داریل اور تا نگیر میں صدیوں سے مو سمی پیش گوئی کا مر بوط اور آزمو دہ نظام مو جو د رہا ہے اس نظا م کے ما ہرین اب بھی خا ل خا ل نظر آتے ہیں اگر کسی سر کاری یا غیر سرکاری ادارے نے اس نظام پر دستاویز ی فلم بنا ئی تو مو جودہ دور میں روایتی علم اور ثقا فتی ورثے کو محفوظ کر نے کے ضمن میں بڑی خد مت تصور کی جا ئیگی زیا دہ دور کی با ت نہیں 1961ء میں پہاڑی علا قوں کے لو گ جا نتے تھے کہ کس تاریخ کو بارش ہو گی کتنے دنو ں کے لئے ہو گی وہ مئی یا جو ن کی اس تاریخ سے پہلے دودھ پلا نے والے مویشیوں کو بچھڑوں، بچھیروں اور میمنوں کے ساتھ گرما ئی چرا گاہوں سے اتار کر گاوں لا تے تھے بارش تھمنے کے بعد واپس جا کر چراگاہ میں چھوڑ کے آتے تھے اس طرح ان کو پتہ ہو تا تھا کہ ستمبر اور اکتوبر کی کس تاریخ کو بارشوں کا آغا ز ہو گا کتنے دنوں تک بارشیں ہو نگی وہ کھیت اور کھلیا ن کی بروقت حفا ظت کا انتظام کر تے تھے چرا گاہوں سے کمزور، بیمار اور دودھ پینے یا پلا نے والے مویشیوں کو محفوظ مقا مات پر منتقل کر تے تھے پہا ڑی دروں پر لمبے سفر سے گریز کر تے تھے اسی انداز میں مو سم سرما کے لئے خشک لکڑی، گوشت اور آٹے کا سٹاک جمع کر نے کے لئے بارشوں اور برفانی ہواوں کی پیشگو ئی کر نے والے ما ہرین سے رائے لیتے تھے اور ان کی رائے کبھی غلط نہیں ہو تی تھی روایتی علم کے مطا بق مو سمی پیشگو ئی کے دو طریقے تھے پہلا طریقہ چاند اور سات ستاروں کے جھر مٹ یعنی خو شہ پروین کی گردش میں دونوں کے ملا پ کی تاریخ کا تعین تھا ملا پ کی یہ تاریخ قمری ما ہ کی 29تاریخ سے الٹی گنتی میں آتی ہے اور ہر قمری ما ہ کی طاق تاریخوں کو ہوا کرتی ہے دیکھا یہ جا تا ہے کہ کس قمری مہینے کی کونسی طاق تاریخ زمین پر رہنے والی مخلو قات کے لئے بد شگو نی کا با عث ہے ان تاریخوں کو دیکھ کر قدرتی آفات کی پیشگو ئی کی جا تی ہے ان تاریخوں میں پیدا ہونے والے بچوں، بچھڑوں، میمنوں اور بچھیروں کی زند گی اور مو ت کے بارے میں بھی پیشگو ئی ہو تی ہے جو تجربات سے سچ ثا بت ہوتی ہے مو سمی پیشگو ئی کا دوسرا طریقہ سورج کی گردش اور غروب آفتا ب کے مقا مات کا تعین ہے یہ بہت پیچیدہ نظا م ہے جس میں ہر گاوں کا مقا می نقشہ ہو تا ہے اس نقشے کی مدد سے جو پیشگو ئی کی جا تی ہے اس کا اطلا ق پوری وادی پر ہو تا ہے مثا ل کے طور پر کمراٹ، کلا م اور شندور کو ملا نے والی وادی لا سپور میں با لیم ایک گاوں ہے اس گاوں کے جنوب میں پہاڑی ڈھلوان پر مو جود چشموں اور چٹا نوں کے نا موں پر مبنی نشا نات ہیں جو سینہ بہ سینہ یا د داشت میں چلی آرہی ہیں غروب آفتاب کے وقت سورج کا سایہ ہر روز ان میں سے کسی نشا ن سے گذر تا ہے یا کسی بھی دو نشا نات کے درمیان ہو تا ہے ان میں سے ہر نشان کا نا م ہے مثلاً پھوو، غوزو کھر، اوسوڑی، سرداوائے وغیرہ سال ہا سال کے تجربے سے ما ہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ فلا ن جگہ بارش کے لئے مخصوص ہے فلا ں جگہ پر سورج آجا ئے تو سیلا ب کا خطرہ ہو سکتا ہے فلا ن جگہ پودا لگا نے اور فصل کی کا شت کے لئے مو زوں ہے چنا نچہ پوری وادی کے لو گ اس حساب سے گلہ با نی اور کھیتی باڑی کا کا م انجام دیتے ہیں یہ روا یتی حکمت اور علم ہے کینڈا میں اس کو ٹریڈیشنل نا لج کے نا م سے با قاعدہ علم کا شعبہ قرار دیاگیا ہے جما ل الدین افغا نی نے اس پر ایک رسا لہ بھی شائع کیا ہے ہماری یو نیورسٹیوں اور جا معتہ الرشید جیسے بڑے اداروں میں اس علم پر تحقیق کی ضرورت ہے۔