دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات ”حالات کے ہاتھوں میں قلندر نہیں گرتا“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات ”حالات کے ہاتھوں میں قلندر نہیں گرتا“
زندگی عروج وزوال کی ایک داستان ہے۔قومیں زوال کے اندھیروں سے اپناہ چراغ جلا کر ہمت کرکے عروج کی روشنی میں آجاتی ہیں۔۔ہمارے پاس دنیا کی تاریخ چھوڑ کر اپنی بھی سنہری تاریخ ہے صحابہ کرام نے رسول ﷺ کے ساتھ پیٹ پر پتھر باندھ کر عروج کی منزلیں ط? کیں۔۔خندق کھودی جارہی تھی مقصد دشمنان خدا کی یلغار کا مقابلہ تھا چٹان نکل آیا۔ بھوک اور بے چارگی کی یہ حالت ہے کہ خود فخر موجوداتﷺ کے پیٹ مبارک پر دو پتھر باندھے ہو? ہیں مخبر صادق ﷺکو خبر دی جاتی ہے آتے ہیں کدال اٹھاتے ہیں پتھر کو مارتے ہیں آگ نکلتی دیکھا?ی دیتی ہے مخبر صادق ﷺ فرماتے ہیں۔۔۔قیصرو کسری اور رومتہ الکبری کے محلات مبارک ہوں۔۔۔۔قوم بنی دنیا زیر ہو گ?۔۔۔جب انگریز ابھرے تو ان کے خلاف دنیا کی قوموں نے جو قربانیاں دیں تاریخ کا حصہ ہیں۔چین اور روس میں بادشاہت کے خلاف لوگ میدان میں آ? قربانیوں کا ریکارڈ قا?م کیا قوم بنی منزل مل گ?۔موزیتنگ جب لانگ مارچ کے ل? روانہ ہو? تو تین لاکھ سرفروش ساتھ تھے منزل پر پہنچے تو دو لاکھ کی قربانی دی تھی۔برصغیر کے مسلمان انگریزوں کے خلاف اٹھے اٹھ لاکھ شہادتیں ہو?یں تب منزل ملی۔۔ہمارے پڑوسی ایران میں شاہ کا اڑن تختہ کیا گیا۔۔خون کی ندیاں بہہ گ?یں منزل مل گ?۔۔سرزمین افغانستان اس انقلاب اور زندہ قوموں کی غیرت کا زندہ ثبوت ہے۔اللہ جس قوم کو ابھارنا چاہتا ہے تو انکے افراد میں صبر، برداشت، ہمت اور غیرت کا جوہر پیدا کرتا ہے اور حکمران اپنی مجرمانہ غفلت عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھ جا?یں تو وہ نیست و نابود ہو جاتیہیں۔ہمارے ہاں کی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔مجرمانہ غفلت، عیاشی، لاپرواہی اور بدعنوانی کی وہ مثالیں قا?م ہو?ی ہیں کہ ہوش و حواس کا انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔قوموں کی ترقی میں ان کے بڑوں کا کردار بڑا ہوتا ہے۔وہ سب سیزیادہ تکلیف برداشت کرنیوالے اور قربانی دینے والے ہوتے ہیں۔جب خان لیاقت علی خان اور غلام محمد بابا? قوم سے ملنے زیارت گ? تو فاطمہ جناح کے مطابق وہ بھا?ی کی چرپا?ی کے پاس کھڑے ہنس ہنس کر اس سے باتیں کر رہے تھے وہ جب رخصت ہو? تو میں نیبھا?ی سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے انھوں نے نہایت افسردگی سے کہا کہ وہ تمہارے بھا?ی کی موت کا انتظار کر رہے تھے۔۔لیاقت علی خان کیوں قتل کی? گ?۔غلام محمد خود فالج زدہ تھے کیا کر رہے تھے سکندر میرزا، آ?ی آ?ی چندیگڑھ کے کیا کردار تھے۔مسٹر نون خیر انکی بیگم وقار النسا نون نے کم از کم گوادر کی جنگ ہمارے ل? لڑی اللہ اس غیرتمند خاتون کی قبر نور سے بھر دے۔مسٹر ایوب خان کا کودیتا۔طویل امریت۔۔۔۔پھر یحی خان اور بھٹو صاحب کی سیاست۔۔۔۔ پھر مرد حق کے گیارہ سال اس قوم نے کیا دیکھا۔پریشانیاں جیلیں، قیدو بند۔۔۔کچھ اچھا ہونے کی امیدیں لیکن آگے کی جب جمہوریتیں آ?یں تو قوم ماضی کو یاد کرنے لگے۔مجرمانہ غفلتیں اور بڑھنے لگیں ملک ترقی کی بجا? تنزل کا شکار ہونے لگا۔ملک کے خزانے پر کہیں چھید پڑ گ?۔خزانہ خالی ہوتا رہا عوام حیران و پریشان انگشت بدندان کھڑے رہے۔بنیادی سہولیات ترقی خوشحالی کا تصور یہ سب خواب ہوتے گ?۔۔ایک طرف اشرافیہ کی زندگیاں رنگینیوں کی حدوں کو چھونے لگیں۔ایک معمولی آفسر جا?داد کے مالک بننے لگے۔معمولی نما?ندہ کروڑوں کے مالک بننے لگے۔گھر سے کوٹھی۔۔۔کوٹھی سے حویلی۔۔۔حویلی سیفارم ہاوس بننے لگے۔گھوڑے مربے کھانے لگے۔۔تیتر بٹیر حلوہ کھانے لگے۔کتے دودھ پینیلگے اور عوام آنسو پینے لگے ان کی زندگی دو وقت کی روٹی سے بھی نیچے آگ?۔ہم قرض لینے لگے پھر بھیک مانگنے لگے اب بھیک بھی نہیں ملتی تو قرض کیل? شرطیں قبول کرنے لگے ہیں۔بدبختی اور غلامی کی اس سے نیچے بھی کو? سطح ہوتی ہے؟۔۔۔آ?ی ایم ایف کے نما?ندوں نے ہمارے آقا?ں سے کہا خدارا عیاشیاں کم کرو۔۔۔قرض دینیوالے ممالک نے کہا اپنے عوام پر رحم کرو۔۔۔ بھیک دینیوالوں نے کہا۔۔۔عجیب بھیکاری ہو۔۔عیاشیاں ہم سے زیادہ۔۔۔لیکن غالب کی وہ حالت کب آتی ہے۔۔۔
قرض کی پیتے تھے م? اور سمجھتے تھے یہ کہ ہاں
رنگ لا? گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب علاج کیا ہے فاقہ مستو! کہ مایوسی کفر ہے اپنے آپ کو سنبھالنا ہے ان کالی بھیڑوں سینجات حاصل کرنا ہے آنکھیں بند کرکے تقلید اور عقیدت چھوڑنا ہے۔حالات کے ہاتھوں میں گرنا نہیں ہے اپنا چراغ جلانا ہے۔بے داغ جمہوریت کاچراغ۔۔احتساب کا چراغ۔انصاف کا چراغ۔عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ہم ہر غلط کوغلط جانتے ہو? بھی غلط نہیں کہہ سکتے ظلم سہتے ہو?بھی انصاف کے ل? کمربستہ نہیں ہوتے۔ہمیں پتہ ہے کہ جس لیڈر کو ہم برا کہتے ہیں وہ کسی دوسری پارٹی میں جا? جو ہماری پارٹی ہو تو وہ فرشتہ صفت بن جاتی ہے۔۔ہم میں وہ جرات نہیں کہ حق کا اعلان کریں اورببانگ دھل اس کی حمایت کریں۔کیا حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ ہم سر اٹھا بھی نہیں سکتے۔۔ہم ووٹ کو درست استعمال بھی نہیں کرسکتے۔۔ہم بدعنوانی کے خلاف میدان میں آ بھی نہیں سکتے۔۔اگر ہم ہمت کریں تو اللہ کی مدد آسکتی ہے۔