دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات ”قائد اعظم کے اصل جانشین“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات ”قائد اعظم کے اصل جانشین“
مصروف سڑک کنارے چھیتڑے نکلے گدی ڈال کر بیٹھا ہوا تھا پاکستان کا ایک معزز شہری تھا۔۔لوگوں کے جوتوں کی مرمت کرتا اور پالیش کرتا تھا۔۔۔چہرے سے بہت مطم?ن تھا۔کسی کے بھی جوتے ٹھیک کرکے معاوضہ لینے کا سما آتا تو بسم اللہ کرکے معاوضہ دا?یں ہاتھ سے لیتا اور”شکریہ“ بولتا۔۔عمر ستر سال کی لگ بھگ تھی۔۔راہ چلتوں کے جوتوں کی طرف کو?ی توجہ نہیں دیتا جس طرح دوسرے پالیشی لوگ دیتے ہیں یا آواز لگاتے ہیں۔۔۔پالش۔۔۔جوتوں کوچمکا?۔۔۔شخصیت سنوار?۔۔۔بابا کی آنکھوں میں چمک اور اطمنان تھا۔ ایک نیپکن گھٹنوں پہ ڈالا ہوا تھا کہ جوتے مرمت کرتے ہو? اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔۔
میں گا?ں سے کچے راستوں پر چل چل کے آیا تھا ایک فنکشن پہ جانا تھا۔۔جوتے گردوں غبار سے اٹے ہو? تھے۔سوچا کہ چمکا کے جا?ں۔۔۔بابا کے پاس جا کے رکا۔ بابا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا فلحال اس کے پاس کو?ی کام نہ تھا۔۔میں نے سلام کیا۔۔بابا یہ جوتے ذرا پالش کرو۔۔اس نے پہلے پلاسٹک کے چپل آگے کیا درست کیا۔۔میں نے جوتا اتار کر چپل پہنا۔۔اس نے میرے جوتے اٹھا? جوتے اپنے گود پہ ہی جھاڑ دیا۔میرے پاس فیس ماسک نہیں تھی میں نے جھٹ سے رومال جیب سے نکالا منہ پہ رکھا تاکہ ناک منہ کو گرد نہ لگ جا?۔۔بابا کے ہونٹوں پہ تبسم پھیل گئی۔۔بسم اللہ کر کے موٹے کپڑے کا ٹکڑا اٹھایا پھر جوتوں کو جھاڑا۔۔۔برش اٹھایا۔۔مجھ سے کہا۔۔ بیٹا! تھوڑا سا وقت لگے گا یا تو کہیں سے ایک کب چا? پی کے آ?۔۔۔میں نے کہا بابا۔۔خیرکو?ی بات نہیں میں ساتھ والی گدی پہ بیٹھتا ہوں۔۔میں بھی بیٹھ گیا۔۔بابا نے کہا۔۔بیٹا گا?ں سے آ? ہو۔۔میں نے کہا ہاں۔۔بابا تم نے گردوں غبار سے اٹھے جوتے دیکھ کر اندازہ لگایا۔۔۔
ہاں۔۔بابا کا لہجہ بھلا کا شرین تھا۔۔میں نے کہا بابا۔۔۔تم نے یہ جوتے اپنی گودی میں جھاڑے۔۔۔پھر کم از کم ایک منٹ کی خاموشی تھی۔۔۔بابا کی پر اسرار خاموشی۔۔۔تب اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔۔بیٹا! میں اس مٹی کے ذرے ذرے کو اپنے بدن پہ، اپنی گودی میں چھپاتا ہوں۔۔آپنی آنکھوں میں چھپاتا ہوں۔۔۔سرما ہے بیٹا۔۔۔میری آنکھوں کا سرما۔۔کہا تم کہاں جا رہے ہو؟۔۔۔بابا فنکشن پہ جا رہا ہوں آج یوم پاکستان ہے۔۔۔آج۔۔۔۔اچھا بابا نے کہا۔۔جشن ہوگا تقریب ہوگی۔۔لوگ سج دھج کے آ?یں گے۔ قومی ترانہ پیش ہوگا۔۔اس دھرتی کی حفاظت کی قسمین کھا?ی جا?ینگی۔۔تاریخ دھرا?ی جا? گی۔قربانیوں کا ذکر ہوگا۔۔عزم، ارادے وعدے۔۔عہد و پیمان۔۔۔پھر تقریب ختم ہوگی۔۔۔چمکتے جوتے والے آ?ر کنڈشنڈ کاروں میں ان پختہ سڑکوں پہ فراٹے بھریں گے۔۔۔تم تو کچے راستے سے آ? ہو نا بابا۔۔۔اس نے مجھے مخاطب کیا۔۔۔میں نے کہا ہاں۔۔۔تمہیں تو اس سر زمین سے کو?ی شکوہ تو نہیں۔۔۔بابا۔۔۔میرا ناطقہ بند ہو گیا تھا۔۔۔کچھ نہ کہہ سکا۔۔اس نے کہا۔۔۔تم لوگ اس تقریب سے فارغ ہوکر اس پاک سر زمین میں پھیل جا?گے۔۔لیکن جج اسی طرح نا انصافی کرے گا۔وکیل صداقت بھول جا? گا۔محافظ کی فکر منتشر رہے گی۔ٹیچر اسی طرح کلاس روم بھول جا? گا۔۔پولیس کا خلوص منہ چڑ کے نہیں بولے گا۔دکاندار چیزیں مہینگی بھیجے گا۔ڈرایور من مانی کرے گا۔حکمراں رعایا کو بھول جا? گا۔دھا?یاں ہونگی۔۔آنسو ہونگے۔فریادیں ہونگی۔۔پھر خاص دن آ?یں گے پھر تقریبیں سجیں گی۔۔ہاں نا بیٹا۔۔۔۔
بابا۔۔۔میرا ناطقہ بند تھا۔۔۔۔
بابا نے آہ بھر کر کہا۔۔۔۔اس ملک نے سب کو سب کچھ دیا ہے۔۔۔کاش یہ ملک ایک زندہ قوم کے پاس ہوتا۔۔بابا نے ایک جوتا چمکا کے میرے سامنے رکھا۔۔۔دوسرا اٹھایا۔۔بیٹا تم سرکاری ملازم ہو؟۔۔۔میں نے کہا ہاں۔۔۔اس باربجٹ میں تمہاری تنخواہیں بڑھیں؟۔۔ میں نے کہا ہاں۔۔۔ قرض پہ بڑھیں؟۔۔اغیار سے قرض لے کے تمہاری تنخواہیں بڑھا?ی گ?یں۔۔ مجھے یکدم جھٹکا سا لگا۔۔غالب یادآیا۔۔
قرض کی پیتے تھے م? اور سمجھتے تھے یہ کہ ہاں۔۔
رنگ لا? گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔۔۔۔
تم خوش ہو?۔۔۔ ہاں۔۔۔۔تم میں اتنی جرآت نہیں تھی کہ کہتے کہ معاشی بحران ہے۔۔۔ہماری تنخواہیں مت بڑھا?۔۔نہیں۔۔۔اس ل? کہ ہماری تنخواہیں نہ بڑھانے سے بھی۔۔۔۔ہاں یہ قرض کی رقم عیاشیوں میں ڈوب جاتی۔۔ہاں بیٹا ایسا ہوتا آیا ہے۔۔بیٹا!۔۔جس قوم میں غیرت ایمانداری اور قربانی کا جذبہ ختم ہو جا? اس کی یوں حالت ہوتی ہے۔اس کے بڑے قربانی سے ماورأ اور چھوٹے قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔مایوسی پھیل جاتی ہے نا امیدی کی فضاہوتی ہے۔۔قاید اعظم نے جس قوم کے ل? قربانی دی تھی۔۔وہ یہ قوم نہیں تھی۔وہ ایسی قوم تھی جس کو اس ملک کے ذرے ذرے سے عقیدت تھی۔وہ قوم خلوص کا پیکر تھی وہ قوم جذبہ خدمت سے پر تھی۔۔اس قوم نے اس ملک کے ل? اپنا سب کچھ تج دیا تھا۔وہ قوم محنت اور صداقت پہ یقین رکھتی تھی۔وہ بدعنوانی سے پاک تھی۔یہ ملک اس کی منزل تھا۔اس ملک کی مضبوطی اور ترقی اس قوم کا خواب تھا۔۔یہ دیکھو بیٹا تمہارا دوسرا جوتا بھی چمکایا گیا تم تقریب میں جا?۔تقریر سنو! چا? پیو نکل جا?۔اس سر زمین میں چل پڑو۔۔اس کی گرد اورمٹی کی دھول تمہارے جوتوں کو گرد آلودہ کرے گی پھر کسی پالیشی کے پاس جانا۔۔۔جوتوں کو چمکانا۔۔۔لیکن بیٹا اس آزاد فضا میں ایک لمبی سانس لینا۔۔بے عرض سانس۔۔۔۔ تمہیں آزادی کی خالص خوشبوآ? گی۔۔۔بیٹا اس سمے ”قا?د اعظم“ سے پیار کرنا۔۔میں اس سرزمین کی دھول کے ذرے ذرے کو اپنے بدن میں سمیٹ لیتا ہوں نیچے گرنے نہیں دیتا۔۔۔۔میری آنکھوں کا سرما۔۔۔میں نے چیخ کر کہا۔۔۔بابا تم اس فنکشن میں نہیں آ? گے۔۔۔
نہیں بیٹا۔۔۔۔ہاں ایک شرط پہ آ?ں گا۔۔۔کہ تم مجھ جیسے موچیوں، راج مزدوروں، چھاپڑی فروشوں، چپڑاسیوں، مستریوں، کمہاروں، نانبایوں اوران جیسوں کو ایک میدان میں جمع کرو۔۔۔مجھے لے جا? اس میں کو?ی بڑا نہ آ?۔۔۔میں ان سے پوچھوں گا کہ آزادی کیا چیز ہے؟ قا?د اعظم کون تھے؟ زندگی کس بلا کا نام ہے؟ غربت کسے کہتے ہیں بھوک پیاس کیا ہوتی ہے؟ وہ جواب دیں گے۔۔۔مجبور کبھی جھوٹ نہیں بولتا آپ بھی سنیں گے۔۔۔لیکن بیٹا!اس فنکشن میں کو? ”بڑا“ نہ آ?۔قا?د اعظم کے اصل جانشین آجا?یں۔۔۔۔۔