داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔شکر گذار بندے

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔شکر گذار بندے
دنیا میں کا میا بی اور خو شحا لی کا راز کیا ہے؟ دانشور وں کا قول ہے کہ دنیا کی تما م مسرتوں کا راز صرف شکر ہے، جو لوگ شکر گذارہو تے ہیں وہ مسرتوں اور شاد ما نیوں سے سر شار ہوتے ہیں شکر کے دو مرا حل ہیں پہلا مر حلہ اللہ پا ک کو خالق، ما لک اور رازق ما ن کر مسلما ن اور مو حد کی حیثیت سے شکر کرنے کا مر حلہ ہے، دوسرا مر حلہ ابن آدم اور انسا ن کی حیثیت سے اپنی دولت، اپنی خو شی، اپنی آسا ئش اور اپنی راحت میں دوسرے انسا نوں کو ثواب کی نیت اور خا لق کی رضا مندی کی طلب کے بغیر ویسے ہی شریک کرنا ہے پہلا مر حلہ مسلما نوں کا ہے دوسرا مر حلہ تما م انسا نوں کا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ تما عالمین کا رب ہے اس لئے وہ دوسرے مر حلے میں بھی شکر کرنے والوں پر اپنی نعمتوں کی بارش بر ساتا ہے ان کی خوشحا لی اور آسا ئش میں اضا فہ کرتا ہے شکر کے مقا بلے میں نا شکر ی کا لفظ آتا ہے، قرآن پا ک میں نا شکر ی کو کفر سے تشبیہہ دی گئی ہے شکر کا دوسرا نا م قنا عت ہے اور قنا عت کے مقا بلے میں لا لچ، حرص اور حسد کے الفاظ آتے ہیں شریعت کے اصو ل اور قوا نین صرف مسلما ن کے لئے ہیں جبکہ فطرت اور قدرت کے اصول اور قوا نین ساری انسا نیت کے لئے ہیں، کسی دوسرے کے لئے خندق کھو د نے والا خود خندق میں گر جا تا ہے چا ہے وہ مسلما ن ہو یا نہ ہو دوسروں کی بھلا ئی چا ہنے والا کبھی برائی سے دو چار نہیں ہو تا چا ہے وہ مسلما ن ہو یا کوئی اور ہو، یہ قدرت اور فطرت کے اصول اور قوا نین ہیں تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات آئے ہیں جن میں شکر کی خو بی اور نا شکری کی خرا بی بیاں کی گئی ہے ایک شخص کا واقعہ آیا ہے جو ہر وقت تنگی، تنگ دستی، غر بت اور نا داری کی شکا یت کر تاتھا ایک بار اس نے ایک بزرگ سے اپنی تنگ دستی کی شکا یت کی، بزرگ نے کہا ایک مر غا پا لو سات دن بعد پھر میرے پا س آؤ، اس نے نصیحت پر عمل کیا سات دن بعد روتا ہوا آیا کہ مر غے میرا جینا حرام کر دیا ہے بزرگ نے کہا ایک بکرا پا لو مر غا بھی ساتھ رکھو سات بعدآجا نا، سائل نے بکرا بھی رکھ لیا سات دن بعد ہلکان ہو کر آیا اور شکا یت لگا ئی کہ میرا جینا دو بھر ہو گیا ہے بزرگ نے کہا کوئی بات نہیں ایک گدھا بھی پا لو پھر آکر مجھے بتا نا، سائل نے گدھا بھی رکھ لیا سات دن بعد آکر بتا یا کہ میرا اور میرے بچوں کا جینا حرام ہو گیا ہے گھر میں اتنی جگہ نہیں جتنی جا نوروں نے لی ہے پھر جا نوروں کی گند گی نے تنگ کیا ہوا ہے، بزرگ نے کہا مر غا بیچ ڈالو، اس نے ایسا کیا، دوسرے ہفتے بزرگ نے کہا بکرا بیچ ڈالو، اس نے ایسا ہی کیا، آخری ہفتے بزرگ نے کہا گدھا بھی بیچ ڈالو، اُس نے بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا، ایک ہفتہ بعد تحفے تحا ئف لیکر آیا اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا سائل کے جا نے کے بعد لو گوں نے بزرگ سے پو چھا اس کو اتنی زیا دہ خو شی، مسرت اور خوش حا لی کیسے نصیب ہوئی؟ بزرگ نے کہا اس کے گھر میں ساری آسائشیں مو جو د تھیں مگر یہ شخص نا شکر ا تھا یہ اپنی آسائشوں کا مقا بلہ اپنے سے زیا دہ خو شخا ل لو گوں سے کر تا تھا اور اپنی قسمت پر ہر وقت روتا رہتا تھا جب مر غا، بکر ا اور گدھا اس کے گھر میں آگھسے تو یہ مزید تنگ ہوا پھر جب تینوں کو گھر سے نکا لا گیا تو اس کو اپنا گھر جنت کا نمو نہ نظر آیا میں نے اس شخص کو عملی طور پر تجربہ کرایا کہ اس کے گھر میں کوئی تنگی اور تنگ دستی نہیں وہ صرف نا شکرا ہے اب یہ کبھی حر ص، حسد اور لا لچ کی آگ میں نہیں جلے گا جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر شکر اور قنا عت کر کے مطمئن زندگی گذارے گا دنیا میں کا میا بی اور خوشخا لی کا معیار دولت نہیں، شکر اور قنا عت ہے، شکر ہی ہے جس کو خوشحا لی اور کا میا بی کا راز کہا جا تا ہے۔