معصوم بنت حوا، چند گزارشات۔۔۔۔۔۔۔ تحریر۔۔ یاسمین الہی قاضی

Print Friendly, PDF & Email

معصوم بنت حوا، چند گزارشات۔۔۔۔۔۔۔ تحریر۔۔ یاسمین الہی قاضی

گزشتہ دنو ں چنیوٹ میں ایک معصوم بنت حوا کے ساتھ درندہ نما انسان نے جو کچھ کیا اسے سن کر دل خون کے آنسو رونے لگا ننھی پھول کا خنجر سے پارہ پا رہ وجودکا تصور دل دہلا کر رکھ دیا۔۔ اس اندوھناک وا قعے کے نتیجے میں تمام لوگوں خصو صا چترالی عوام کا غم وغصہ دید نی اور عین بر حق تھا۔اس درندہ صفت انسان۔۔۔شاید وہ درندے سے بھی بد تر تھا کیوں کہ کوئی بھی درندہ اپنی اولاد کو خود اس طرح چیر پھاڑ کر نہیں رکھ دیتا۔۔۔۔وہ دوسرے کی اولاد پہ رحم کیسے کھا تا جس نے اپنی اولاد کو بھی نہیں بخشا۔۔۔یقیناایسے در ندو ں سے بدتر لوگ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوتیانھیں ان کے کئیے کی سزا ایسی ملنی چاہئیے کہ اس جیسے دوسرے لوگ بھی ایسی سفاکیت سے پہلیاپنا انجام سوچ کر اس سے باز انے پر خود بخود مجبور ہو جائے۔اس وا قعے کے بعد مختلف تنظیمو ں اور ادار وں کی طرف سے مختلف مطالبات پیش کئے گئے جن میں سے ایک مطا لبہ بلکہ پر زور مطالبہ یہ تھا کہ آج کے بعد چترال کی بیٹیاں چترال سے باہر ہر گز نہ بیا ہی جا ئیں اس پر مکمل پابندی لگا ئی جائے۔۔ہم اس مطا لبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیو ں کہ اپنی بیٹیو ں اور بہنو ں کی محبت میں اور ان کی حفاظت کی خاطر یہ مطا لبہ کیا جا رہاھے۔لیکن بحیثیت دختران چترال کے ہم اس مطا لبے کو مسلے کا درست حل نہیں سمجھتے۔۔کیو ں کہ یہ بہت معصوما نہ اور نادانی پر مبنی مطا لبہ ہے۔۔دیکھا جائے تو ایسی لڑکیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے جن کی شادیاں چترال سے باہر ہو ئیں ہیں اور آج وہ قا بل رشک زندگی گزار رہی ہیں۔خوش ہیں آباد ہیں۔۔جس سے یہ بات عیا ں ہوتی ہے کہ اچھے برے ہر جگے ہوتے ہیں۔۔ بلا شبہ چترال کے تمام باشندے بڑیمہذب،پرامن،ہمدرد،ملنسار اور غیور ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ برے بھی ہیں۔۔اگرچہ ان کی تعداد کم ہے بہر حال۔۔یہاں برے لوگ بھی ہیں۔۔ چترال چھو ٹی سی وادی ہے اور ”لواری” کے اس پا ر شہر بھی بڑیہیں اس لیے برے لوگوں کی تعدا د بھی وہاں زیادہ ھے۔۔جانب داری کی عینک کو پرے ہٹا کر حقیقت پسندانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہی حقیقت ھے باقی متعصبا نہ سوچ کے حامل افرا د کچھ بھی سوچ سکتے ہیں۔۔۔اور ایسے لوگوں کا شیو ہ ہوتا ہے بے پر کی اڑانا۔۔۔القصہ برے اور سفاک لوگوں سے ہمارا علاقہ بھی پاک نہیں ھے یہی وجہ ھے لڑکیا ں اور عور تیں خود کو دریاے چترال کے بے رحم موجوں کا سپرد کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں سسرالیوں کے رویو ں اور گھر یلو نا چا قی کی بدو لت دنیا ان پر تنگ ہوتی ہے اور وہ خودکشی جیسے حرام فعل کا مر تکب ہو کر خود کو اس اذیت سے نجات دلا نے کی کوشش کرتے ہیں۔۔کئی واقعات ایسے بھی سامنے آے جس میں تو قتل کو خود کشی کا رنگ دیاگیا ہے چترال میں دوسرے ضلعو ں کی نسبت خود کشی کا تناسب زیادہ ہے۔جو کہ ایک ٹھو س حقیقت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں چترال کے اندر بے شمار ایسی لڑکیاں ہیں جو شوہر کے تشدد یا سسرو الوں کے طعنو ں اور سازشوں کا شکار ہو کر ہر روز مرتی اور جیتی ہیں۔ افسوس!ایسے زبانی تیروں اور دل سوز رویو ں کی سزا دنیا کے کسی قانون میں موجود نہیں ورنہ پتا چلتا کہ اپنی وادی کے اندر شادی کر کے بھی بیچاری بنت حوا کیا کچھ جھیل رہی ہے۔۔ ایسے نا روا سلوک جس کی وجہ سے جسم کو تو خراش تک نہیں آتا البتہ روح چھلنی چھلنی ہو جاتی ہے۔ افسوس ایسے روح کے قا تلو ں کی کوئی سزاکہیں موجود نہیں۔۔چترال کے بیٹیو ں کی مفاد کی خا طرصرف مذکورہ مطالبہ درست نہیں۔۔کیوں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ان عنا صر کوڈہونڈ یں جو باہر شادیوں کا با عث بن رہے ہیں۔۔پھر ان کا تدا رک کیجئے تب یہ مسلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔۔۔ہماری نظر میں باہر شادیوں کی دو بڑ ی اور بنیاد ی وجوہات ہیں جن کا قلع قمع کئے بنا ان شادیو ں کے سلسلے کو نہیں روکا جا سکتا۔۔۔پہلی وجہ یہی ہے کہ ہم آج بھی ذات پا ت کے زنجیروں میں جھکڑے ہویے ہیں ہمیں اپنے بھائی بیٹو ں لئے دلھن خوبصورت اور خوب سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اور بڑ ے خاندان کا ہونا بھی ضروری ہے۔کسی عا م خاندان (اپنے بنائے ہوئے درجات کے حوالے سے)کی بیٹی کو بہو بنا نا اپنی تو ھین سمجھتے ہیں۔ اگر کہیں ایسی کوئی شادی ہو بھی جائے تو دوسرے رشتہ دار اس کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں اور معا ملہ قطع تعلقی تک جا پہنچتا ہے۔ایسی صورت میں ایک مجبور اور لا چار باب کے پاس اپنی بیٹی کی شادی باہر کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن ہی نہیں بچتا۔اگر ہمیں واقعی میں اپنی بیٹیو ں اور بہنو ں کا مفاد درکار ہے تو ہماری اس غیر اسلامی سوچ اور نقطہ نگاہ کو بدلنا پڑے گا ۔۔ جب تک ہم ذات پات کے چکروں میں ہندو و ں کی طرح پڑے رہیں گے باہر شادیو ں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔۔۔دوسری وجہ ایسے بے جوڑ رشتو ں کی شاید ”غر بت ” ہے ۔چترال کے لوگ دل کے برے نہیں ہیں مگر اپنی زندگی اور حا ل میں مگن رہنے والے ہیں ایک معمو لی حیثیت کا مفلس باب جس کا خدا کے سوا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جس کے کندھے پر پانچ پانچ چھ چھ جوان بیٹیوں کا بوچھ ہو ان کے سامنے جب باہر سے رشتہ آتا ہے تو بلا سوچے سمجھے وہ یہ بوجھ سر سے اتار پھینکنے میں ہی عا فیت جانتا ہے۔عا م خاندان سے تعلق اور غر بت کی وجہ سیاپنے علا قے کا کوئی اچھا رشتہ ملنا ناممکن ھو توایسے والدین باہر کے رشتے کو تمام برائیوں کے ساتھ قبول کرنے سے نہیں ہچکیچا تے۔۔جب کہ یہاں یہ بات بھی قابل غو ر ہے کہ ہر لحاظ سے مستحکم خاندان کی بیٹیاں جن کی شادی بھی باہر ہویی مگر وہ سب تو خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔۔یعنی باہر شادی مسلہ نہیں اصل مسلہ غربت ہے۔اپنے ارد گرد کے غریب لوگوں کی ہر ممکن مدد ایسی بے جوڑ شادیو ں کی تعداد میں کمی کر سکتا ہے۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جو ملنساری، شائستگی،ہمدرد ی اوررحم دلی ہمارے آباو اجداد کا خاصا تھا آج نا پید ہوتا جار ہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو ماننے کے کے بھی تیار نہیں۔۔اور اس بات کو غلط ثا بت کرنے کے لیے دلا ئل اور جواز ڈھونڈھتے ہیں تاکہ اس خوش فہمی میں عمر تمام ہوجا ے کہ ہم بہت اچھے ہیں۔۔۔ہمارے تمام مسا ئل چاہے انفرادی ہوں یا ا اجتماعی سب کا حل اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات میں مضمر ہے۔۔جب تک ہم اپنے معا ملات کو اسلام کے مطابق نہیں ڈ ھالیں گے ایسے مسا ئل پیدا ہوتے رہیں گے۔۔سہی معنو ں میں مسلمان چاہے وادی کا ہو یا باہر کا وہ کبھی کسی کو کسی بھی قسم کا دکھ نہیں دے سکتا۔۔سب سے بڑا مسلہ اسلام سے دوری ہے۔
آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ تمام علما، مبلعین اور،وا عظین ایسے معاملات سے متعلق اسلامی تعلیمات اور حقوق و فرائض پر آسان فہم انداز میں ہمیشہ اپنے مجالس مبارکہ میں زور دیں تے رہیں تاکہ ہر خاص و عام کو مستفید ہونے کا شرف حاصل ہو جائے اور اس کی وجہ سے کسی کی اصلاح ہو جائے۔۔۔ ایک دوسرے کے حقو ق سے اگاہی حاصل ہو جائے اور کوئی معصوم جا ن بج جائے۔۔اس حوالے سے ہر فرد تک اسلامی تعلیمات پہنچا نے میں حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چایئے۔۔
اللّہ ہم سب کو صراط مسطقیم پر چلنے کی توفیق عطا کر کے ہماری دنیا و آخرت سنوار ے امین ۔۔۔
تحریر:۔
(یاسمین الہی قاضی)