دادبیداد۔۔حکومت کی آئینی مدّت۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

حزب اختلاف کی بعض جماعتوں نے انتخابات کے 8ماہ بعد اُس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے جس کی آئینی مدت 5سال ہے ماضی میں اسمبلیوں کو توڑ نے کے لئے آئینی اختیار کے تحت 5حکومتوں کو آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے رخصت کیا گیا 1977ء میں ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر فوج کو مداخلت کی دعوت دی، 4 چار مہینوں کے اندر منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور دو سال بعد وزیر اعظم کو پھانسی دیدی گئی یہ غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی رویہ ہے جو وطن عزیز پاکستان میں عام ہے یہاں کے سیاست دان انتخابات کا کھیل خوشی سے کھیلتے ہیں مگر ہار جیت کے اصول کو نہیں مانتے، آئین پر دستخط کرتے ہیں حلف بھی اُٹھاتے ہیں مگر آئین کو تسلیم نہیں کرتے،جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں مگر جمہوری رویہ ان کو پسند نہیں ہوتا اگست 2014ء میں مسلم لیگ کی حکومت کو گرانے کے لئے دو سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو باقی سیاسی پارٹیوں نے اُس دھرنے کے خلاف ایکا کر لیا مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیتہ العلمائے اسلام،عوامی نیشنل پارٹی، اور جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کا اختیا ر دھرنا دینے والوں کو نہیں دیا جاسکتا یہ اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے دھرنا دینے والے پارلیمنٹ کے خلا ف جو زبان استعمال کرتے تھے وہ قلم کی نوک پر لانے کے لائق نہیں تھی پھر بھی اخبارات میں پارلیمنٹ پر لعنت،بوگس انتخابات اور جعلی مینڈیٹ پر مبنی خبریں تسلسل کے ساتھ آتی رہیں 2014ء میں جن لیڈروں نے حکومت گرانے کی مخالفت کی تھی آج وہی لیڈرحکومت گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور حکومت کا اپنا رویہ بھی منیر نیازی کے پنجابی شعر کی طر ح نرالا ہے منیر نیازی کے شعر کا مفہوم یہ ہے کہ ”زمانہ بھی ظالم تھا ہمیں بھی مرنے کاشوق تھا“ بعض اوقات حکمرانوں کی تقریریں سُن کر لگتا ہے کہ زمانہ اتنا ظالم نہیں جتنا ان لوگو ں کو مرنے کا شوق ہے حکمرانوں کو دو باتوں کی خبر نہیں پہلی بات یہ ہے 2014ء میں وہ حزب اختلاف میں تھے ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں کے خلاف تقریریں کرنا ان کی سیاسی مجبوری بھی تھی اور ضرورت بھی، آج 2019ء میں وہ اقتدار میں ہیں ان کی پارٹی کو ملک کی مقبول سیاسی جماعت کا درجہ مل چکا ہے اب کسی دوسرے لیڈر یا کسی دوسری پارٹی کے خلاف بولنا اور مسلسل بولتے رہنا ان کی ضرورت بھی نہیں مجبوری بھی نہیں دوسری اہم بات یہ ہے کہ گھوٹکی اور گوادر سے لیکر کراچی، لاہو ر اور جمرود تک پاکستان کے عوام اپنی منتخب قیادت سے کچھ توقعات وابستہ کرتے ہیں اور اُن توقعات پر حکمر نوں کی رائے سنناچاہتے ہیں کابینہ کے اجلاسوں کی رپورٹیں آتی ہیں تو ان رپورٹوں میں اپنی اُمیدوں کے چراغ ڈھونڈتے ہیں جب حکمران مائیک کے سامنے ایک گھنٹہ کھڑے ہوکر تقریر کریں اور 60منٹوں میں سے 55منٹ مخالفین کا ذکر کرنے کے لئے وقف کریں تو اُمیدیں مایوسی میں بدل جاتی ہیں آپ ایوب خان، ذلفقار علی بھٹو، جنر ل ضیاء الحق، نواز شریف،محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی تقریریں سُنینگے تو ایک گھنٹے کی تقریر میں مخالف کا ذکر 5منٹ کے لئے بھی اس میں نہیں آئیگا آپ زرداری کی کسی تقریر کا ریکارڈ لگا کر سُنیں تو اس میں کسی مخالف کا نام ایک منٹ بھی نہیں لیگا اُ ن کو پتہ ہے کہ مخالف کا نام بار بار لینے سے مخالف کو شہرت ملتی ہے جس مشہور ی کے لئے اُس کو اشتہار دینا چاہیئے وہ مشہوری مفت میں ہاتھ آتی ہے نواز شریف کے عروج کے زمانے میں کسی عارف کا قول تھا کہ ان کی گردن کا سریا نہیں نکلتا اُسی دور میں کس واقف ِ حال نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف خود کشی کے راستے پر گامزن ہے کا بینہ کے چار وزراء اپنے قائد کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں اور یہ لو گ اپنے لیڈر کو گہر ے خندق میں دھکیلے بغیر واپس نہیں آئینگے پیش گوئی کر نے والے 2019میں بھی وہی پیش گوئی دہرارہے ہیں اُسی طر ح کے 4وزراء اپنی حکومت کے پیچھے پ ڑے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنی حکومت کا تیا پانچہ کر کے ہی دم لینگے وجہ کیا ہے؟ وجہ وہی سریا ہے جو کسی سیاستدان کی گردن میں نصب ہوتا ہے تو وہ خوشامد کے سوا کوئی بات نہیں سُنتا یہ حکمران کا سب سے بڑامسئلہ ہے اس کو اندھیر ے میں رکھا جاتا ہے وہ غلط بات بھی زبان پر لائے تو واہ،واہ کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں حزب اختلاف کا یہ مسئلہ نہیں اگر حزب اختلاف کو جمہوریت پسند ہونے کا زعم ہے تو وہ 5سال انتظار کرے جس حکومت کو وہ ناتجربہ کار اور نالائق قرار دیتی ہے اس کو مرگ مفاجات کے ذریعے شہید کروا کر ہیرو اور نجا ت دہندہ بننے کا موقع نہ دے یہی آئین کا تقاضا ہے اور یہی جمہوریت کی روح ہے حکومت کی آئینی مدت ہر حا ل میں پوری ہونی چاہیئے