ٹی بی کو غریبوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان سمیت دنیابھرمیں ہر سال 24 مارچ کو ٹی بی یعنی تپ دق کے مرض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد لوگوں میں اس بیماری سے بچنے سے متعلق شعور و آگہی پیدا کرنا ہے۔ اس مرض کی علامات تشخیص اور علاج کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ٹی بی کا مرض غریب افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے، تنگ و تاریک اور زیادہ گنجان آباد علاقوں میں اکثریہ کیسس تشخیص ہوتے ہیں۔جراثیم سے آلودہ رہائش، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف اور غیر معیاری اشیاء کھانے سے صحت کا معیار گر جاتا ہے اور یوں انسان اس موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مشقت کی زیادتی بھی ٹی بی کا سبب بنتی ہے۔ حکومت پاکستان اس مرض کے علاج و معالجہ کی سہولت مفت مہیا کر رہی ہے۔ تپ دق کو غریبوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہیں مناسب حسب ضرورت خوراک مہیا نہیں ہوتی اور اچھی رہائش بھی نہیں ملتی۔ ٹی بی کی تشخیص کے لیے ملک بھر میں 1200 سے زائد مراکز قائم ہیں مگر مناسب آگاہی نہ ہونے کے باعث اکثر مریضوں میں اس بیماری کی تشخیص بر وقت نہیں ہو پاتی۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس مرض کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ٹی بی سے پاکستان میں ہونے والی اموات کی شرح پانچ فیصد ہے۔ ٹی بی ایک مہلک مرض ہے پاکستان میں 9 لاکھ سے زائد افراد ٹی بی کا شکا رہے اوراس موذی مرض سے شرح اموات 5 فیصد ہے۔ پاکستان میں عورتوں میں ٹی بی کا مرض زیادہ ہے جبکہ پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مرد زیادہ مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی نسبت ٹی بی کے مریضوں میں مردوں کی شرح اموات زیادہ ہیں۔دنیا کے تمام ممالک کے ہسپتالوں میں ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کا سلسلہ تیزی سے شروع کیا گیا آج پورے پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کی سہولت موجود وہے ٹی بی پروگرام کے تحت یہ کام ملک کے کونے کونے میں کیا جا رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ٹی بی کنٹرول آفیسرچترال ڈاکٹرفرح جاوید نے ٹی بی کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ معاشرہ و سماجی مسائل اور غربت کے علاوہ عوام میں امراض کے روک تھام کے حوالہ سے شعور و آگاہی کا نہ ہونا بھی اس مرض کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ٹی بی کا مرض غریب افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے، گنجان آباد علاقومیں اکثریہ کیسس تشخیص ہوتے ہیں۔ اس مرض کی عام علامات میں شام کے وقت ہلکا ہلکا بخار رہنے لگتا ہے اورپورے جسم میں خصوصاً سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ رات کوٹھنڈے پسینے آتے ہیں اور بعض اوقات کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ شدید کمزوری کے ساتھ وزن میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ تپ دق ایک مہلک اور چھوت کی بیماری ہے جو ایک جراثیم سے پیدا ہوتی ہے۔ تپ دق بنیادی طور پر پھیپھڑوں کی ایک بیماری ہے مگر یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔حکومت خیبرپختونخوا کی ہدایت پر سرکاری ہسپتالوں اور منتخب پرائیویٹ کلینکس پر ٹی بی کے مریضوں کی مفت تشخیص و علاج سمیت انہیں مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ٹی بی کی علامات ظاہرہونے کی صورت میں اپنے قریبی سرکاری مرکزصحت یامنتخب پرائیویٹ لیبارٹری سے بلغم کامعائنہ کراوئیں۔اگرٹی بی کامرض ہوجائے توگھبرانے کی ضرورت نہیں۔ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے، اس جدید دور میں مریض کاجدید طریقے سے علاج کیا جاتاہے اور بہت کم عرصے میں مریض صحتیاب ہوجاتاہے۔انہوں نے 2018کی تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ ضلع چترال میں کل 627 کیسس تشخص ہوئے جن میں 152صحت یاب،451کامکمل علاج،6کاناکام علاج اورچھ مریض فوت ہوچکے ہیں۔
آغاخان ہیلتھ سروس چترال کے ریجنل منیجرمعراج الدین نے کہا کہ آغاخان ہیلتھ سروس چترال ٹی بی کی روک تھام کے حوالے سے چترال کے دورافتادہ اورپسماندہ علاقوں میں حکومت کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔ اس موذی مرض ٹی بی کا جڑ سے خاتمہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ٹی بی سے بچاؤ اور مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے اس بیماری کے بارے میں شعور و آگاہی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے ٹی بی کے مریضوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس مرض کا مکمل علاج ممکن ہے۔چترال کے مختلف علاقوں میں سمیناراورواک کیاجاتاہے جس میں اس موزی مرض سے چھٹکاراحاصل کرنے کی ہدایت بھی کیجاتی ہے۔عوام میں شعوراجاگرہونے کی وجہ سے اس وقت ہمارے چترال میں ٹی بی کے مریضوں کے تعداد پہلے سے کم ہو رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس کو ٹی بی سے بچنے کیلئے تدابیر سے آگاہ کیا جائے، پھر مریضوں کا رخ معالج اور ہسپتالوں کی طرف کیا جائے جہاں پر ڈاکٹرز حضرات ٹی بی جیسی مرض کا قلع قمع کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔انہوں نے کہاکہ مریض کے ساتھ ہمدرانہ اوردوستانہ رویہ مرض کی روک تھام کے لئے انتہائی ضروری ہے۔دوران علاج مریض کی حوصلہ افزائی سے مثبت نتائج برآمدہوتے ہیں۔اس مرض کے کامیاب علاج میں مریض اور اس کے لواحقین کا تعاون بے حد ضروری ہوتا ہے۔اورگھر کے دیگر افراد کی جسمانی اورذہنی صحت کا بھی خیال رکھیں۔آغاخان ہیلتھ سروس چترال کے مختلف علاقوں میں ٹی بی کے تشخص سینٹرقائم کئے ہیں تاکہ لوگوں کودورجانانہ پڑے۔
ایم اے ایل سی چترال کے ڈسٹرکٹ فیلڈافیسرمصطفی کمال اورفارق اعظم نے کہاکہ میری ایڈیلیڈلیپروسی سینٹر(MALC) ٹی بی کے خلاف جدوجہد کرنے والا واحد ادارہ ہے جہاں علاج کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔اس ادارے کی کوششوں کی بدولت دروش میں چھ،چترال میں اٹھ اوربونی میں پانچ ڈاکٹرزاورکئی پیرمیڈیکل اسٹاف کوٹی بی کے حوالے ٹریننگ دی گئی ہے۔پرائیویٹ کلینکس سے تشخص ہونے والے ٹی بی کے مریضوں کو ڈاکٹرکی ہدایت کے مطابق کورس مکمل ہونے تک ادویات گھرکی دہلیزمیں فراہم کرتے ہیں۔چترال کے سکول،کالجزاوردیگرمقامات پرآگاہی پروگرامات کرتے ہیں تاکہ آنے والی نسل کواس بیماری سے نجات مل سکیں۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ٹی بی قابل علاج ہے۔ اگر وقت پر علاج معالجہ شروع کردیا جائے تو مریض شفایاب ہوجاتا ہے۔ تاہم تاخیر کی صورت میں مرض شدت اختیار کرجاتا ہے اور شفایابی کے امکانات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔