ہماری دینی رغبت۔۔تحریر: اقبال حیاتؔ آف بر غذی

Print Friendly, PDF & Email

عید کے موقع پر ہر سال عید گاہوں میں جمع ہونے والے نمازیوں کو نیت باندھنے کے الفاظ، رکعتوں کی تعداد اور نمازوں کے اندر تکبیروں کے بارے میں بتائے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح نماز جنازہ کے شرکاء کو بھی یہی تر بیت دی جاتی ہے۔ اور یہ عمل اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک مسلمان معاشرے کے افراد پر نوحہ کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان مواقع پر موجود افراد یقینا عاقل بالغ، بڑے اور بوڑھے عمر کے ہوتے ہیں۔ اور ان کی زندگی کے دوران وقتاً فو قتاً و قوع پزیر ہونے والے ان ایام کے مواقع پر اسلام کے بتائے ہوئے طور طریقوں سے نا آشنائی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دینی اقدار کی طرف ہماری رغبت کی کیفیت کو نمایاں کرنے کے حامل ہیں۔ حالانکہ دنیا وی مفاد سے متعلقہ تمام دھندوں اور امورکی طرف دلچسپی سے بھر پور میلان ہوتی ہے۔ ہر کسب و کمال کی آرزواور خواہش دل میں ہمہ وقت مچلتی رہتی ہے۔ زمینداری اور دوسری دنیاداری کے کاموں کی انجام دہی کے وقت یاد دھانی یا بار بار تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے طور طریقے لوحِ دل پر ثبت ہوتے ہیں مگر ابدی زندگی کی کامرانی کے امور کے سلسلے دلی ہیجان میں تلاطم پیدا نہیں ہوتا۔ زبان دانی کی طرف دھیان اور خصوصاً انگریزی زبان سے دلی لگاؤ اور اس پر عبور حاصل کرنے کا خبط سر پر سوار رہتا ہے۔ مگر قرآن کی زبان سیکھنے اور رب کائنات کے عظیم کلام کو سمجھنے کی جستجو اور خواہش دل کے کونے میں بھی نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ اللہ پاک سے ملا قات کے حامل نماز پنجگانہ میں رب کائنات کے حضور کھڑے زبان سے نکلنے والی قرآنی آیات اور خصوصاً سورہ فاتحہ کی صورت میں التجا کے معانی سے ہی نا آشنائی دین سے ہماری نسبت کے معیار کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور وہ قوم جسے قرآن کا پیغام دنیا والوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اسکی خود قرآن سے بیگانگی لمحہ فکریہ ہے۔
یہاں یہ امر حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ قوت گویائی زبان میں پیدا ہوتے ہی زبان اگر قرآنی الفا ظ سے آشنا ہوجائے تو پوری زندگی پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ مگر بد قسمتی سے ایک مسلمان خانوادے میں آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلی آواز جو سماعت میں آتی ہے وہ موسیقی ہے۔ اور ابتدائی تر بیت میں سب سے زیادہ جس عمل پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ وہ موسیقی کی دھن پر ناچنے سے آشنائی ہے۔ اور سب سے پہلے بچے کے جن الفاظ کو چہچہانے سے تعبیر کر کے اسے گلے لگا کر آنکھوں کو چوما جاتا ہے۔ وہ گالی ہے۔ اور معاملاتی امور میں جو پہلی تربیت بچے کو ملتی ہے وہ جھوٹ بولنا ہے۔ اور یوں پروان چڑھنے والی امت مسلمہ کو امریکہ کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے سائے میں عید کی نماز اور نماز جنازہ کی ترکیب بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی رہیگی کیونکہ
خشت ا ول چوں نہد معمار کج
تا ثر یا می رود دیوار کج