دادبیداد۔۔بی ایس پر وگرام اور غریب عوام ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

اعلیٰ تعلیم کا 16سالہ بیچلر پرگرام دنیا کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے کے لئے لا گیا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ پروگرام غریب آدمی کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ آئیندہ 10سالوں میں پاکستان کا غریب طبقہ اعلیٰ تعلیم کی سہولت سے محروم ہو جائے گا اور اعلیٰ تعلیم بھی جمہوریت اور سیاست کی طرح صرف جاگیر دار،سرمایہ دار اورمتمول طبقے کے لئے مخصوص ہو کر رہ جائے گا ہماری قوم افیمی قوم ہے اس کو میمو گیٹ کا افیم دیدو پانامہ لیکس،ڈان لیکس اور دیگر لیکس کا افیم دیدو،بے معنی اور لا حاصل بحثوں میں الجھا دو داعش اور طالبان سے ڈرا دو قوم سوئی رہے گی اور تمام مواقع غریب کے ہاتھ سے نکل جاتے رہنگیے 200سال پہلے انگریزوں نے ہندوستان میں غلام قوم کے لئے دہرا نظام تعلیم متعارف کرایا ڈیرہ دون اور چبیفس کا لج میں پڑھنے والے جاگیرداروں کے بچے ہو تے تھے جو افیسر بنتے تھے ٹا ٹ سکولوں اور سرکا ری کالجوں میں پڑ ھنے والے غریبوں کے بچے ہو تے تھے جو کلرک،بابو اور چپڑاسی یا ڈرائیور بنتے تھے یہ نظام تعلیم انگریزوں کی حکومت اور ہندستانیوں کی غلامی کیلئے مناسب انتظام تھا قیام پاکستان کے 70سال بعد غلامی کے دور کو واپس لا یا گیا ہے اور انگریزوں کے دور کی طرح قوم کو جاگیر دار اور غریب کے دو طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے حقوق سارے جاگیر دار اور سرمایہ دار کو دیے گئے غریب کے لئے ذلت اور خواری مقدر کی گئی جون ایلیا کی نظم ”ولایت خائبان“کا ایک منظر ایسا ہے جس میں دو مسافر وں کو بتا یا جاتا ہے کہ اس ملک کے لوگ ہمیشہ سوئے رہتے ہیں گفتگو بھی خرا ٹوں میں کر تے ہیں نظم کا ایک کردار یا سرا بن جندب یہ حال سنکر حیران ہو جاتا ہے یہ علامتی نظم ہے جس میں پاکستانی بریر ابن سُلامہ اور یاسرابن جندب کو سرائے سین کی سیر کر اکے پاکستان کی قومی حالت کا نقشہ کھنچا گیا ہے وطن عزیز پاکستان میں 9 تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں کسی ایک تعلیمی پالیسی میں معاشرے کے بنیادی حقائق کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں 4 سالہ بیچلرز پروگرام 2007میں پہلی بار متعارف کرایا گیا اُس وقت یہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طرح اختیاری پروگرام تھا جو طالب علم اپنے علمی استعداد اور مالی وسائل کے اعتبار سے اس پروگرام میں جانے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ اس پروگرام میں جائے گا دوسرے طلباء اور طالبات دوسالہ ڈگری پروگرام میں داخلہ لینگے داخلہ لینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں تو پرائیویٹ امتحان دینگے اس پروگرام کے تحت ڈگری کالجوں میں سے منتخب کا لجوں کو ڈگری دینے کا اختیا ر ملنا چاہیے تھا نیز اس پرو گرام کے تحت منتخب کا لجوں کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کا تقرر ہو نا چاہئیے تھا 7سال بعد 2014میں اس پروگرام کا رخ موڑ دیا گیا خیبر پختونخوا کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی کوئی ضرورت نہیں ریسر چ کی کوئی ضرورت نہیں کا لجوں کو ڈگری دینے کا اختیار دینے کی کوئی ضرورت نہیں دوسالہ گر یجویٹ پروگرام کو جاری رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اس طرح غریب طالب علم کو چار بڑے مسائل میں پھنسا یا گیا وہ ریسر چ کے بغیر 4سالہ ڈگری پروگرام مکمل کر گا وہ دو سالہ ڈگری پروگرام سے محروم ہو گا اس کو پرائیویٹ امتحان کی اجازت نہیں ہو گی ایم اے اور ایم ایس سی ڈگریاں ختم ہو جائینگی اس طرح اعلیٰ تعلیم کو غریب لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا گیا اب غریب آدمی کی اولاد انٹر پاس کر نے کے بعد دو سال مزید تعلیم حاصل کر کے گریجویشن نہیں کر سکیگی مزید دو سال پڑھ کر ایم اے یا ایم ایس سی نہیں کر سکیگی اب غریب آدمی کے چار یا پانچ بچے بچیاں گریجویشن کیلئے چار سال انتظار کرینگی کم آمدنی والے لوگوں کے بچے بچیاں روزگار کے ساتھ پرائیویٹ امتحان دیکر بی اے اور بی ایس سی نہیں کر سکینگی پرائیویٹ امتحان دیکر ایم اے یا ایم ایس سی نہیں کر سیکنگی اعلیٰ تعلیم کا دروازہ غریبوں کیلئے بند ہو جائے گا زندگی کے دیگر شعبوں میں ہماری حکومت نے چین کا نام لینا شروع کیا ہے لازم ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بھی چین کے تجربات سے استفادہ کیا جائے جہاں دنیا بھر سے غریب طلبا اور طالبات کو وظائف دے کر بلایا جاتا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع دیئے جاتے ہیں 5 جون 2018 کو عام انتخابات کی تاریخ دی گئی ہے عوام کا فرض ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع تلاش کر یں اور سیاسی جماعتوں کو مجبور کریں کہ وہ بی ایس پروگرام کو محدود کر کے دو سالہ ڈگری پروگرام کی حوصلہ افزائی کریں۔